پشتین کی کوئٹہ بدری، ’’حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی‘‘
10 دسمبر 2018منظور پشتین نے کوئٹہ سے زبردستی کراچی اپنی واپسی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی حکومت پشتونوں کے پر امن اور آئین کے دائرے میں ہونے والی جدوجہد کو روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا، ’’آج ہمیں قواعد و ضوابط کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئٹہ سے واپس کراچی اور بعد میں اسلام آباد منتقل کیاگیا۔ ہمیں اس امر پر بے حد افسوس ہے کہ یہاں ریاستی ادارے پشتونوں کو جائز حق کے لیے آواز بلند کرنے سے بھی روکنے کی کوشش رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’’اگر حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ یہاں بسنے والے پشتون بھی اس ملک کے شہری ہیں توان پر تمام دروازے کیوں بند کیے جا رہے ہیں؟ کیا اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا کوئی جرم ہے ؟ کیا آئین پاکستان نے ہر شہری کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ انصاف کے لیے آواز اٹھائے؟ ہم سب آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر اس ریاست سے پشتونوں کے حقوق مانگ رہے ہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہمیں اب اپنے لوگوں سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘‘
پی آئی اے کی پرواز پی کے تین سو دس کے ذریعے کراچی سے کوئٹہ پہنچنے والے منظور پشتین، سائیں انور شیرانی اور محمد ادریس کو کوئٹہ ایئرپورٹ سے ہی دوسرے جہاز میں زبردستی سوار کر کے کراچی واپس بھیج دیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ پشتین اور ان کے ساتھیوں کو ایئرپورٹ پر کچھ دیر حراست میں بھی رکھا گیا اور ان سے مختلف سوالات کیے گئے۔
منظور پشتین نے بتایا کہ پشتون تحفظ مومومنٹ پاکستان میں پشتونوں پر ہونے والے بد ترین مظالم کے خلاف جاری جدوجہد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔انہوں نے مزید کہا، ’’ریاستی ادارے پشتون تحفظ مومومنٹ پر بے بنیاد الزامات عائد کر کے حقائق مسخ کرنے کی کوشش رہے ہیں۔ ہمیں ایک منظم منصوبے کے تحت ملک دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ظلم کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ریاست پاکستان کے آئین کی رو سے ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ ہمیں اس حق سے دستبردار کرنے کی کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پشتونوں پر جو بد ترین مظالم کیے گئے ہیں اور اب تک کیے جا رہے ہیں ان سے اب پوری دنیا واقف ہو چکی ہے۔ اب پشتون اپنے حقوق کے لیے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔‘‘
پی ٹی ایم کے چیئرمین کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں معصوم پشتونوں کے قتل میں ملوث ریاستی اہلکاروں کو پشت پنائی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’نقیب محسود کے مبینہ قاتل راؤ انوار کو جس طرح حکومت سزا سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے اس سے ریاستی عدل وانصاف بہت عیاں ہو چکا ہے۔ اگر یہاں بات ایک ریاست اور شہری کی ہے تو ہمارے جائز مطالبات حل کیے جائیں۔‘‘
منظور پشتین اور ان کے دیگر دو ساتھیوں کی کوئٹہ سے زبردستی واپسی کے عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے حلقہ این اے پچاس کے رکن قومی اسمبلی اورپشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما علی وزیر کے بقول منظور پشتین کی کوئٹہ سے زبردستی واپسی ریاست کے دوہرے معیار کی عکاسی کرتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ایک طرف یہ دعوے کیے جارہے ہیں کہ حکومت عوام کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہی ہے اور دوسری جانب ایک آمرانہ دور کی طرح ملک میں مظلوم پشتونوں کے بنیادی حقوق غصب کیے جا رہے ہیں۔ پی ٹی ایم پشتون عوام کی ایک با مقصد اور پرامن تحریک ہے۔ اس سے وابستہ ہر شہری ضابطے کے تحت سیاسی اور جمہوری طرز پر جدو جہد کر رہا ہے۔‘‘
علی وزیر کے بقول اس پرامن تحریک کا نام مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے اچھالے گئے کیچڑ سے کبھی کمزور نہیں ہو گا۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ریاستی اداروں کے بیانات میں تضادات کئی سولات کو جنم دے رہے ہیں۔ کورکمانڈر سے لے کر ڈی جی آئی ایس پی آر تک سب واضح طور پر یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ پی ٹی ایم کا احتجاج قانون کے دائرے میں ہے۔ پھر یہ اوچھے ہتھکنڈے کیوں استعمال کیے جا رہے ہیں؟ منظور پشتین اور دیگر ساتھیوں کو کوئٹہ جانے سے روکنا ایک غیر آئینی عمل ہے۔ اس سے قبل یہی قدم پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ کی موجودہ حکومت بھی اٹھا چکی ہے لیکن وہاں عوام کے بھرپور اصرار پر وہ فیصلہ واپس لے لیا گیا۔‘‘
رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ ان کے بقول،’’فوجی آپریشنوں سے ہمارے لوگ جس بڑے پیمانے پر بے گھر ہوئے ہیں ان کے لیے اندرونی اور بیرونی سطح پر جو امداد آئی ہے متاثرہ قبائلی عوام کو اس سے بھی ابھی تک دور رکھا گیا ہے۔ لاپتا پشتونوں کے ورثاء در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر انہیں کوئی انصاف نہیں دے رہا۔ آپریشن کی وجہ سے ہمارے علاقوں کو بارود کے ڈھیر میں تبدیل کیا گیا۔ یہ دعوے تو کیے گئے ہیں کہ وہاں سے بارودی سرنگیں صاف کی جا رہی ہیں لیکن حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اقتصادی طور پر پشتونوں کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے۔‘‘
علی وزیر نے بتایا کہ پی ٹی ایم پر جو بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے ہیں یا تو ریاست انہیں ثابت کرے یا اپنی ناکامی تسلیم کرے،’’ہماری جدوجہد کبھی بھی آئین اور قانون کے دائرے سے باہر نہیں رہی ہے۔‘‘
پی ٹی ایم کی رہنماء اور کور کمیٹی کی سینئر ممبر ثناء اعجاز کے بقول پشتون تحفظ موومنٹ نے کبھی بھی پاکستان توڑنے کی بات نہیں کی لیکن ریاست کا ہمارے خلاف ہر قدم غیر آئینی ثابت ہوا ہے ۔ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،’’پاکستان کا آئین آرٹیکل 15 کے تحت ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں بلا کسی رکاوٹ کے جا سکتا ہے۔ آج کس ضابطے کے تحت منظور پشتین اور دیگر رہنماؤں کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکا گیا ؟ پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے جن ڈیکلریشنز پر دستخط کیے ہیں ان کی سر عام خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ہمیں اس لیے روکا جا رہا ہے کیونکہ ہم فیئر ٹرائیل اور مسنگ پرسنز کی بات کر رہے ہیں۔ اپنے عوام کے مسائل کو اجاگر کرنا کیا جرم ہے ؟"
ثناء اعجاز نے کہا کہ پشتون قبائلی علاقوں میں ریاستی اداروں نے آپریشنز کے دوران انسانی حقوق کی جو سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں ان پر آواز اٹھانا ہمارا آئینی اور جمہوری حق ہے۔
انہوں نے مزید کہا، " فوجی آپریشنز کے دوران ہمارے لوگ بڑے پیمانے پر بلاوجہ گرفتار کیے گئے۔ آج تک ان کی گرفتاری کی وجوہات بھی واضح نہیں کی گئی ہیں۔ شورش زدہ علاقوں میں بارودی سرنگوں سے ہمارے لوگ دن بدن معذور یا زندگیوں سے محروم ہو رہے ہیں مگر انہیں کوئی انصاف فراہم نہیں کر رہا ہے۔ دوسری جانب احسان اللہ احسان جیسے دہشت گردوں کو ریاست پروٹوکول دے رہی ہے ہم اس دوہرے معیار کا احاطہ کر رہے ہیں۔‘‘
قانونی امور کے سئینر تجزیہ کار ڈاکٹر نصب اللہ کے بقول پی ٹی ایم کے قانون کے دائرے میں ہونے والے احتجاج کو روکنا حکومت کے لیے کسی بھی طور پر سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں اس وقت جو شورش ہو رہی ہے اس سے یوں تو ہر فرد متاثر ہے لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ شمالی علاقوں سمیت ملک کے دیگر حصوں میں پشتون قبائل بعض معاملات میں بہت مشکلات کا شکار رہے ہیں۔ خاص کر پشتون آئی ڈی پیز کے مسائل اور بعد میں ان کی از سر نو آبادکاری کا جو معاملہ ہے وہ انتہائی سست روی کا شکارہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پشتون عوام کے دیرینہ مسائل کے حل پر سنجیدگی سے توجہ دے۔‘‘
نصیب اللہ کا کہنا تھا قیام امن کی صورتحال میں خلل پر امن احتجاج سے کبھی نہیں آتا بلکہ غیر پر بلوچستان حکومت نے ایک حکم نامے کے تحت پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور ان کے ساتھیوں پر صوبے میں داخل ہونے پر 90 یوم کے لے پابندی عائد کی ہے۔ سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ منظور پشتین پرعوام کو ریاست کے خلاف اکسانے اور انتشار پھیلانے کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہے اور وہ مقررہ ایام تک صوبے کے کسی بھی علاقے میں داخل نہیں ہو سکتے۔
منظور پشتین اوراور پی ٹی ایم کے دیگر ارکان کی کوئٹہ سے زبردستی واپسی کے خلاف پی ٹی ایم کی جانب سے ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج بھی کیا گیا۔اس احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف نعرے بھی لگائے اور مطالبات کی منظوری کا مطالبہ کیا۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی ایم نے موجودہ حالات سے نمٹنے کے لیے کور کمیٹی کا اجلاس بھی طلب کیا ہے جس میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست پی ٹی ایم کے مطالبات فردا ًفرداً پورے کر رہی ہے۔ ان کے بقول اگر پی ٹی ایم نے حد پار کی تو ریاست صورتحال پر قابو پانے کے لیے اختیارات کا استعمال کرے گی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں منظور پشتین کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم پاکستان میں پشتونوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف ایک جاندار آواز بن چکی ہے اور اسے کسی ہتھکنڈے سے ناکام نہیں کیا جا سکتا۔