پلاسٹک اسٹراز کا استعمال ختم کر دیں گے، اسٹار بَکس
10 جولائی 2018
دنیا کی معروف کافی شاپ اسٹار بَکس نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں موجود اس کی دکانوں میں پلاسٹک اسٹراز کا استعمال دو برس کے اندر اندر بالکل ختم کر دیا جائے گا۔ تحفظ ماحول کے لیے اس طرح کا فیصلہ کرنے والی یہ سب سے بڑی چین ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسٹار بکس کافی اور گرم مشروبات فروخت کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے جس نے تحفظ ماحول کے لیے اس اہم فیصلے کا اعلان کیا ہے۔
پلاسٹک اسٹراز ویسے تو اُس آلودگی کا بہت کم حصہ ہیں جو سمندروں میں پہنچتی ہے تاہم یہ اس لیے اہم سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ایسی آلودگی میں کمی کے لیے ان کا خاتمہ آسان ترین ہے۔ اس کے علاوہ اسٹراز کو ری سائیکل کرنا چونکہ مشکل ہوتا ہے لہذا یہ زیادہ تر ماحولیاتی آلودگی کا ہی حصہ بنتے ہیں۔
اسٹار بَکس کی طرف سے پیر نو جولائی کو اعلان کیا گیا کہ وہ 2020ء تک ماحول دوست اسٹراز کا استعمال شروع کر دے گی جیسے کاغذ وغیرہ۔ اس کے علاوہ کپ کے ڈھکن وغیرہ بھی ایسے ہی میٹیریل سے تیار شدہ استعمال کیے جائیں گے۔ امریکی شہر سیاٹل میں اسٹار بکس پہلے ہی ماحول دوست اسٹراز استعمال کر رہی ہے۔
اسٹار بَکس کے اس فیصلے سے قبل رواں برس فروری میں ’ڈَنکنز ڈونٹس‘ نے اعلان کیا تھا کہ وہ 2020ء تک اپنے تمام اسٹورز سے پولسیٹرین سے بنے کپوں کا خاتمہ کر دے گی۔
برگر چین میکڈونلڈز کہہ چکی ہے کہ وہ آئندہ برس کے اختتام تک برطانیہ اور آئرلینڈ میں پیپر اسٹراز کا استعمال شروع کر دے گی جبکہ امریکا میں بعض شہروں میں بھی پلاسٹک اسٹراز کے متبادل کو تجرباتی طور پر متعارف کرائے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ میکڈونلڈز رواں برس یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ 2025ء تک اپنے سوڈا کپس، ہیپی میل بکس اور دیگر پیکجز کے لیے ری سائیکل شدہ یا پھر ماحول دوست میٹیریلز کا استعمال شروع کر دیا جائے گا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق دنیا بھر میں اگر پلاسٹک پر مبنی کوڑے کے تعداد کی بات کی جائے تو پلاسٹک اسٹراز کی تعداد محض چار فیصد بنتی ہے جبکہ ان کا وزن بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں پلاسٹک پر مبنی ایسے کچرے کی مقدار نو ملین ٹن ہوتی ہے جو سمندروں تک پہنچ جاتا ہے جبکہ اس میں سے پلاسٹک اسٹرا کا حجم محض دو ہزار ٹن ہوتا ہے۔
پلاسٹک کی ماحولیاتی آلودگی کا بھیانک چہرہ
خوبصورت سمندری ساحل اب پلاسٹک کی بوتلوں اور تھیلوں کے ساتھ ساتھ اِن سے مرے پرندوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ساحل دوسرے کچرے سے بھی اٹی ہوئی ہیں۔ پلاسٹک سے انسانی محبت کی قیمت بھی اب انسانوں کو چکانی پڑ رہی ہے۔
تصویر: Daniel Müller/Greenpeace
پلاسٹک کی عمر
پلاسٹک ایک ہلکا پھلکا اور تادیر رہنے والا مادہ ہے۔ سن 1950 میں ابتدائی پروڈکشن کے بعد سے اسے آٹھ بلین میٹرک ٹن سے زائد یہ پیدا کیا جا چکا ہے۔ یہ مسلسل ری سائیکل بھی کیا جا رہا ہے۔ اس کا مادی انحطاط ممکن نہیں اور اس کے نابود نہ ہونے نے انسانی زندگی میں انتہائی زیادہ مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ کچرے کے ڈھیر سے ری سائیکل کے لیے پلاسٹک ضرور اکھٹا کیا جاتا ہے لیکن بہت سارا سمندر تک پھر بھی پہنچ جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Mukoya
پلاسٹک کے دریا
دنیا بھر میں نوے فیصد پلاسٹک کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک دریا پہنچاتے ہیں۔ ان میں دنیا کے دس بڑے دریا شامل ہیں۔ ان کے نام ہیں، یانگژی، زرد، سندھ، ہائی، نیل، گنگا، پرل، آمو، نائیجر اور میکانگ۔ یہ دریا انتہائی گنجان شہروں کے قریب سے گزرتے ہیں اور اپنے ساتھ کچرا بھی بہا کر لے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/G. B. Dantes
پرندوں نے بھی پلاسٹک کا استعمال شروع کر دیا
کئی پرندوں کے لیے دریاؤں، سمندروں اور جنگلوں میں پائے جانے والے کاٹھ کباڑ میں پلاسٹک کو اپنے لیے مفید بھی جانا ہے۔ ڈنمارک کی کوپن ہاگن جھیل میں یہ پرندہ پلاسٹک کو اپنے گھونسلے میں استعمال کیے ہوئے ہے۔ ریسرچر کے مطابق انسانوں کی طرح پرندوں کے لیے بھی پلاسٹک انتہائی غیرمفید ہے۔
تصویر: picture-alliance/Ritzau Scanpix
پلاسٹک استعمال کرنے کے خطرناک نتائج
پلاسٹک کے مکمل طور پر نابود ہونے کا عرصہ بہت طویل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی موجودگی ماحولیات کے لیے تباہ کن اثرات کی حامل ہے۔ دنیا بھر میں پچاس فیصد پلاسٹک کوڑے دانوں میں پھینک دیا جاتا ہے جو انجام کار ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کے غیرضروری استعمال کی وجہ سے سمندری حیات و نباتات پر تباہ کن اثرات مرتب ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Balance
پلاسٹک خوراک کا حصہ بن چکا ہے
جانور پلاسٹک کو خوراک سمجھ کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی جان کو داؤ پر لگا دیتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ، روس، آئس لینڈ اور دیگر ممالک کے کئی جزائر پر چونتیس فیصد سمندری حیات کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں۔ مجموعی طور پر چوہتر فیصد پلاسٹک قابل ہضم نہیں ہوتا۔ اس سے انسانی بدن میں بھی جانے سے اندرونی اجزاء کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پلاسٹک نے انسانوں اور پرندوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی عظیم الجثہ مخلوق کو بھی ہلاک کرنے سے گریز نہیں کیا۔ تھائی نہر میں ایک ایسی وہیل مچھلی پائی گئی تھی، جس کو سانس لینے میں شدید دشواری تھی کیونکہ اُس کے گلے میں پلاسٹک کا بیگ پھنسا ہوا تھا۔ علاج کے دوران وہیل کے اندر سے پانچ پلاسٹک کے تھیلے نکلے تھے۔ یہ وہیل بعد میں جانبر نہیں ہو سکی تھی۔ اس وہیل کا معدہ اسی فیصد پلاسٹک کچرے سے بھرا ہوا تھا۔
تصویر: Reuters
پلاسٹک کی دیکھی اور ان دیکھی صورتیں
انسانی زندگی میں پلاسٹک کی مختلف صورتیں ہیں۔ ان میں بعض ہمارے سامنے ہیں اور بعض مختلف اشیا میں ملفوف ہوتی ہیں۔ سمندر میں انتہائی باریک پلاسٹک کے ذرات تیرتے پھرتے ہیں اور یہ بھی سمندری حیات کے لیے شدید نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ ان ذرات نے مچھلیوں اور سمندری پرندوں کی افزائش پر شدید منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NOAA Pacific Islands Fisheries Science Center
پلاسٹک سے نجات کی صورت دکھائی نہیں دے رہی
انسانوں کو پلاسٹک کے استعمال سے کیونکر نجات مل سکتی ہے۔ ماحول دوست پلاسٹک کی طویل ری سائیکلنگ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک کے استعمال کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یورپی یونین نے اس حوالے سے مثبت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور ایک دفعہ ری سائیکل ہونے والے پلاسٹک پر پابندی کا امکان ہے۔