پلاسٹک کی آلودگی سے اٹھاسی فیصد سمندری حیات متاثر، رپورٹ
13 فروری 2022
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق پلاسٹک کے ذرات ’سمندر کے تمام حصوں‘ تک پہنچ چکے ہیں۔ وائلڈ لائف گروپ نے پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
ڈبلیو ڈبلیو ایف کی شائع کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سمندر میں پلاسٹک کی شدید آلودگی سے 88 فیصد سمندری انواع متاثر ہو چکی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کھانے والوں میں وہ مچھلیاں بھی شامل ہیں، جو عام طور پر انسان کی غزا ہیں۔
رپورٹ میں کیا کہا گیا؟
یہ رپورٹ جرمنی کے آلفریڈ ویگنر انسٹی ٹیوٹ کے تعاون سےمرتب کی گئی ہے اور اس موضوع پر 2590 سائنسی مطالعات کا ڈیٹا استعمال کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سمندر میں پلاسٹک اور مائیکرو پلاسٹک کے اثرات کا احاطہ کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل میں 'پلاسٹک کے جزیرے‘ بن چکے ہیں، جو پلاسٹک کے تیرتے ہوئے ٹکڑوں سے تشکیل پائے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سطح سمندر سے لے کر اس کی گہرائی تک، قطبین سے لے کر دور دراز کے ساحلوں اور جزائر تک تقریباﹰ ہر سمندری حصے میں پلاسٹک پایا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جانداروں سے لے کر وہیل مچھلیوں کے پیٹ تک میں سے پلاسٹک ملا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 2144 سمندری اقسام کی آماجگاہوں کو پلاسٹک کی آلودگی سے خطرات کا سامنا ہے جبکہ ان میں سے درجنوں اقسام پلاسٹک کھانے پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 90 فیصد سمندری پرندوں اور 50 فیصد کچھوؤں کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے خبردار کیا ہے کہ گھونگھوں، شیل فش اور سیپیوں تک میں بھی پلاسٹک کا مواد پایا گیا ہے۔ رپورٹ میں پیشن گوئی کی گئی ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار 2040ء تک دوگنی ہو جائے گی اور اس سے سمندروں میں پلاسٹک کے فضلے میں چار گنا اضافہ ہو گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق پلاسٹک آلودگی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے بحیرہء ذرد، مشرقی بحیرہ چین اور بحیرہ روم ہیں۔ یہ علاقے ابھی سے اُس حد تک پہنچ چکے ہیں، جتنے پلاسٹک ذرات ایک سمندری علاقہ جذب کر سکتا ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف کے ماہر ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگرچہ ماہی گیری بھی سمندری آلودگی کی ایک اہم وجہ ہے لیکن بنیادی مسئلہ ایک بار استعمال ہونے والے پلاسٹک کے پھیلاؤ کا ہے۔ پلاسٹک روز بروز سستا ہو رہا ہے اور اسی وجہ سے اس سے بنی اشیاء کی پیداوار میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔
ایریک لینڈے برگ کے مطابق اگر صورتحال میں تبدیلی نہ لائی گئی تو'ایکو سسٹم تباہ‘ ہو سکتا ہے، جس سے سمندری خوراک کا نظام مکمل طور پر متاثر ہو گا۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف نے اپیل کی ہے کہ اٹھائیس فروری سے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے ماحولیاتی اجلاس میں پلاسٹک کے حوالے سے ایک عالمی معاہدے کی راہ ہموار کی جائے۔
ا ا / ع س ( اے ایف پی، ای ایف ای، ڈی پی اے)
وہ وقت دور نہیں جب سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک ہو گا
گزشتہ نصف صدی میں ہم نے 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا ہے، جس کی اکثریت کسی نہ کسی صورت میں ہمارے ماحول کو تباہ کر رہی ہے۔ معاملات اسی طرح جاری رہے، تو سن 2050 تک سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
جب پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ کوئی مسئلہ نہیں تھا
سن 1950 سے 1970ء تک کی دہائیوں میں پلاسٹک کم مقدار میں بنتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ نہ ہونے کے برابر تھا اور یہ دنیا کے لیے بڑا مسئلہ نہیں تھا، جتنا پلاسٹک کوڑے تک پہنچتا تھا، اسے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا۔
تصویر: Ben Curtis/AP Images/picture alliance
صنعتی ترقی اور پلاسٹک کی پیداوار تین گنا
سن 1990 کی دہائی تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا سے بھی زیادہ بڑھ چکی تھی۔ اسی طرح پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ بڑھا اور آہستہ آہستہ یہ ایک مسئلہ بنتا گیا۔
سن 2000 کے اوائل میں پلاسٹک کی پیداوار بے تحاشہ بڑھ چکی تھی۔ ایک دہائی میں پلاسٹک کی پیداوار اتنی بڑھی، جتنی گزشتہ چار دہائیوں میں ملا کر بھی نہیں بڑھی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Desouki
پلاسٹک کا کچرا، آج کی دنیا کا بڑا مسئلہ
آج دنیا بھر میں سالانہ بنیادوں پر تین سو ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا کرکٹ جمع ہوتا ہے۔ اگر دنیا کی مجموعی آبادی کا وزن کیا جائے، تو وہ پلاسٹک کے اس وزن سے کم ہو گا۔
تصویر: Getty Images/E. Wray
پلاسٹک: ماحول کی تباہی کا ذمہ دار
سن 1950 سے لے کر اب تک قریب 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا گیا ہے۔ اس کے ساٹھ فیصد کو درست اور ماحول دوست طریقے سے ٹھکانے نہیں لگایا جا سکا، جس کی وجہ سے یہ پلاسٹک آج یا تو کوڑے کرکٹ کے پہاڑوں کی صورت میں موجود ہے یا ہمارے سمندروں، جنگلات اور ماحول کا حصہ بن کر انہیں تباہ کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/Y. Chiba
سب سے زیادہ نمایاں: سگریٹ کے فلٹر
ایک تازہ سروے کے مطابق پلاسٹک کے کوڑے میں سب سے نمایاں سگرٹ کے فلٹر ہیں۔ پانی و مشروبات کی بوتلیں، بوتلوں کے ڈھکنے، کھانے پینے کی اشیاء کی پیکنگ، شاپنگ بیگز اور اسٹرا دیگر اشیاء ہیں، جو پلاسٹک کے کوڑے کرکٹ کا نمایاں حصہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/W. Steinberg
آبی حیات اور سمندروں کے لیے خطرہ
ہر سال آٹھ ملین ٹن پلاسٹک کا کوڑا ہمارے سمندروں کا حصہ بنتا ہے۔ سمندروں میں یہ پلاسٹک دریاؤں سے پہنچتا ہے۔ دنیا کے دس دریا، نوے فیصد پلاسٹک کا کوڑا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان کا دریائے سندھ بھی ان میں شامل ہے، جس سے سالانہ 164,332 ٹن پلاسٹک سمندر میں پھیلتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
مچھلی کم، پلاسٹک زیادہ
اگر پلاسٹک کی پیداوار اور اس سے بننے والے کچرے پر کنٹرول نہیں کیا گیا اور معاملات اسی طرح جاری رہے، تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2050 تک ہمارے سمندروں میں مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک پایا جائے گا۔