پلوامہ حملہ: بھارتی فوجیوں کی آخری رسومات، بدلے کے مطالبات
16 فروری 2019
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ہوئے خود کش بم حملے میں مارے گئے اکتالیس بھارتی فوجیوں میں سے متعدد کی آخری رسومات ہفتہ سولہ فروری کو ادا کر دی گئیں جبکہ اس حملے کا بدلہ لینے کے مطالبات بھی کیے جا رہے ہیں۔
اشتہار
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی سے ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق آج سولہ فروری کو جب پلوامہ میں دہشت گردی کے اس بہت خونریز واقعے میں ہلاک ہونے والے درجنوں بھارتی فوجیوں میں سے متعدد کی آخری رسومات ادا کی گئیں، تو کشمیر کے ایک حصے میں چوبیس گھنٹے کا کرفیو ابھی تک نافذ تھا۔
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
10 تصاویر1 | 10
ان ہلاک شدگان کی آخری رسومات میں ہزارہا سوگواران نے شرکت کی، اور وہ مطالبے کر رہے تھے کہ بھارت کو اس ہلاکت خیز دہشت گردی کا بدلہ لینا چاہیے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں یہ خود کش حملہ جمعرات چودہ فروری کو اس وقت کیا گیا تھا، جب ہمالیہ کے اس علاقے میں تقریباﹰ ڈھائی ہزار بھارتی فوجیوں کا ایک قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔
سب سے ہلاکت خیز حملہ
اس حملے میں حملہ آور نے اپنی دھماکا خیز مواد سے لدی ہوئی وین کو اس فوجی قافلے میں شامل گاڑیوں سے ٹکرا دیا تھا اور یہ حملہ اتنا بڑا تھا کہ یہ کشمیر کے مسلح تنازعے میں گزشتہ تین عشروں کے دوران آج تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ثابت ہوا تھا۔
اس حملے میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کی آخری رسومات کی ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی تقریبات کو بھارتی نشریاتی اداروں نے براہ راست دکھایا۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں جمعے کو رات گئے کشمیر سے نئی دہلی پہنچائی گئی تھیں، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے ان فوجیوں کی لاشوں والے تابوتوں کے سامنے پھولوں کی چادریں بھی رکھی تھیں۔
آج ہفتے کے روز ملک کے مشرق میں گیا سے لے کر شمال میں اُنّاؤ تک کے قصبوں میں ان فوجیوں کے آبائی علاقوں میں جب آخری رسومات کے لیے ان کی لاشیں پہنچائی گئیں، تو ان کے تابوتوں میں سے ہر ایک بھارت کے قومی پرچم میں لپٹا ہوا تھا۔ اس موقع پر ہزاروں کی تعداد میں ہلاک شدگان کے لواحقین اور عام شہری بھی موجود تھے، جو یہ مطالبے کر رہے تھے کہ نئی دہلی کو اس حملے کا بدلہ لینا چاہیے۔
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
بھارت کا پاکستان پر الزام
اس حملے کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اس دہشت گردی کے ذمے دار عسکریت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دیے ہوئے ہے۔ نئی دہلی حکومت کے اس موقف کے بعد بھارت میں قومی سطح پر اس قدر غصہ پایا جاتا ہے کہ عوامی حلقوں میں سے بہت سے یہ مطالبے بھی کرنے لگے ہیں کہ نئی دہلی کو ان ہلاکتوں کا بدلہ لینے کے لیے ہمسایہ ملک اورحریف ایٹمی طاقت پاکستان کے خلاف جنگ شروع کر دینا چاہیے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ضلع پلوامہ میں جس بھارتی فوجی قافلے کو اس حملے کا نشانہ بنایا گیا، اس میں مجموعی طور پر 78 بسیں شامل تھیں۔ ان بسوں میں بھارت کی سینٹرل ریزرو پولیس فورس یا سی آر پی ایف کے فوجی سوار تھے۔ یہ حملہ ایک مقامی نوجوان کشمیری عسکریت پسند نے کیا تھا، جس کا نام عادل احمد عرف وقاص کمانڈو تھا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر سے کچھ ہی باہر پلوامہ کے ضلع میں ایک ہائی وے پر عادل احمد نے اپنی بارود سے لدی ہوئی وین جب اس فوجی قافلے سے ٹکرائی، تو بھارتی دستوں کی دو بسیں براہ راست اس دھماکے کی زد میں آ گئی تھیں، جن میں بیسیوں فوجی سوار تھے۔
جیش محمد کا اعتراف
اس حملے کی ذمے داری عسکریت پسند مسلمانوں کی تنظیم جیش محمد قبول کر چکی ہے۔ اسی عسکری تنظیم نے یہ بھی کہا تھا کہ حملہ آور ایک مقامی عسکریت پسند عادل احمد تھا، جو وقاص کمانڈو بھی کہلاتا تھا۔ بھارت کا الزام ہے کہ جیش محمد نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں اور اس گروپ کے عسکریت پسندوں کو مبینہ طور پر پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔
پاکستان کی طرف سے تردید
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کل جمعے کے روز یہ بھی کہا تھا کہ اس حملے میں ملوث عناصر نے ’بہت بڑی غلطی‘ کی ہے اور انہیں اپنے اس اقدام کی ’بہت بڑی قیمت‘ چکانا پڑے گی۔ اس حملے کے بعد بھارت یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو الگ تھلگ کر دینے کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
ساتھ ہی نئی دہلی حکومت نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے ’ناقابل تردید شواہد‘ موجود ہیں کہ اس حملے میں مبینہ طور پر اسلام آباد کا ہاتھ ہے۔ دوسری طرف پاکستان اس سلسلے میں اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔
م م / ش ح / اے ایف پی
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔