بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر عائد کر دیا ہے۔ تاہم پاکستان نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اشتہار
پاکستان اور بھارت کے زیرِ اتنظام رہنے والے کشمیریوں کا کہنا ہے گو کہ پاکستان کا کشمیر کی عسکریت پسندی میں ہاتھ رہا ہے لیکن بھارتی جارحانہ اقدامات بھی کشمیر میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں اور ایسے حملے بھارتی ریاستی جبر کا ردِ عمل ہیں۔
واضح رہے کہ کل بروز جمعرات کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری پاکستانی عسکریت پسند تنظیم جیشِ محمد نے قبول کر لی ہے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگاتے ہوئے سخت ردِعمل کا انتباہ دیا ہے اور اسلام آباد کو دھمکی دی ہے کہ اس کو سفارتی سطح پر تنہا کیا جائے گا۔ کئی دہائیوں تک پاکستان کے اتحادی رہنے والے امریکاہ اہلکار، جو اسلام آباد کی مدد سے طالبان سے مذاکرات کر رہے ، نے بھی پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرے اور دہشت گردوں کو نہ محفوظ پناہ گاہیں دیں اور نہ ہی ان کی حمایت کرے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھارتی الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ جب کہ پاکستانی تجزیہ نگار اس حملے کے پیچھے نئی دہلی کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شیعب نے اس حملے کا الزام بھارتی جاسوسی تنظیم را پر لگاتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ اگر بھارت اس طرح ظلم کرے گا تو بہت سارے کشمیری نوجوان ایسی ذلت کی زندگی سے عزت کی موت کو ترجیح دیں گے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی نے ایسے ہی کسی کشمیری نوجوان کو اس کام کے لیے استعمال کیا تاکہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے اور اس میں ہونے والی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کو روکا جائے، اسے سفارتی طور پر تنہا کیا جائے، اس حملے کو جواز بنا کر کشمیری عوام کو کچلا جائے، کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم و ستم کو دہشت گردی کے خلاف جنگ قرار دیا جائے اور فاٹا میں گڑ بڑ کر کے پاکستان کی توجہ افغان امن عمل سے ہٹائی جائے۔‘‘
’’بھارت کشمیر پر اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا ہے‘‘
اسلام آباد میں ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس کا مقصد پاکستان کی جانب سے دنیا کو لائن آف کنٹرول پر جنگی کیفیت اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیری مظاہرین پر تشدد کے بارے میں آگاہ کرنا بتایا گیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس
وزیر اعظم، سینیئر سیاسی قائدین اور اپوزیشن کے اراکین اجلاس میں شریک ہوئے۔ پاکستان کے سکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اجلاس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی صورت حال پر سیاست دانوں کو بریفنگ دی۔ اجلاس میں شریک سیاسی قائدین نے مسئلہ کشمیرپرحکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے
پارلیمانی اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو نے کہا،’’ بھارت کشمیر پر اخلاقی جواز کھو چکا ہے، کشمیر کے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’ دنیا کو بتانا ہے کہ ہم نان اسٹیٹ ایکٹرز کو برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
تصویر: DW/R. Saeed
سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی
مولانا فضل الرحمان نے اس موقع پر کہا،’’ مشکل وقت میں قومی اتحاد وقت کا تقاضہ ہے۔‘‘ وزیر اعظم نواز شریف نے اجلاس میں تمام سیاسی رہنماؤں کی رائے کو سنا۔ نواز شریف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی تجاویز کی روشنی حکمت عملی طے کی جائے گی۔
تصویر: DW/R. Saeed
’کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں‘
اس اجلاس کے اعلامیہ میں لکھا گیا ہے،’’بھارت سرحد پار دہشت گردی کا معاملہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھا رہا ہے، کشمیر پر بھارت کے دعوے کو مسترد کرتے ہیں۔‘‘ اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے آپس میں بات چیت کرنے کے مواقعوں کو ضائع کرنے کے عمل کی مذمت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Saeed
کشمیر ایک متنازعہ علاقہ
اعلامیہ میں لکھا گیا ہے کہ بھارت نے خود اقوام متحدہ میں تسلیم کر رکھا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ بھارت بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور کلبھوشن یادو جیسے ’را‘ کے ایجنٹ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرر ہے ہیں۔ اعلامیہ میں بھارت کے پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کو بھی مسترد کیا ہے۔
تصویر: DW/R. Saeed
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی جاری
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے آج صبح ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے نیزہ پیر سیکٹر پر’’بلا اشتعال فائرنگ‘‘ کی گئی۔ اس سے قبل پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے قریب افتخار آباد سیکٹر میں بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ان واقعات کے بعد آئی ایس پی آر کے ایک اور بیان میں کہا گیا کہ کیلار سیکٹر میں بھی بھارت کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک
پاکستان اور بھارت کی افواج کے مابین فائرنگ کا سلسلہ اس واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی پیش آیا ہے جس میں عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے بارہ مولا سیکٹر میں بھارتی فوج کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا تھا۔ اس حملے میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک اہل کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا ہے۔
تصویر: REUTERS/M. Gupta
‘اڑی حملے میں پاکستان ملوث ہے‘
واضح رہے کہ 18 ستمبر کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اڑی سیکٹر پر عسکریت پسندوں کی جانب سے ہونے والے حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے سرحد پار کرکے بھارت داخل ہوئے تھے۔ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کر دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Mughal
’سرجیکل اسٹرائیک‘
دونوں ممالک میں کشیدگی مزید اس وقت بڑھی جب چند روز قبل بھارتی افواج کی فائرنگ سے پاکستان کی فوج کے دو سپاہی ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر ایک ’سرجیکل اسٹرائیک‘ کی۔ پاکستان نے بھارت کا یہ دعویٰ مسترد کر دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Channi Anand
9 تصاویر1 | 9
بی جے پی پر الزام رہا ہے کہ وہ پاکستان اور مسلم مخالف ماحول پیدا کر کے ووٹ حاصل کرتی ہے۔ جنرل امجد کا دعویٰ ہے کہ مودی ایسے حملے کروا کر مسلم مخالف ماحول پیدا کر رہے ہیں، ’’میری تو یہ پیشن گوئی ہے کہ اس نوعیت کے حملے سکھوں پر بھی کرائے جا سکتے ہیں تا کہ کرتار پور والے مسئلے پر جو پاکستان نے سکھوں کی ہمدردیاں حاصل کیں ہیں، انہیں خراب کیا جائے۔‘‘
لیکن کئی غیر جانبدار تجزیہ نگار جنرل امجد کے اس الزام کو غلط قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی جہادی تنظیموں نے نہ صرف بھارت اور اس کے زیرِ اتنظام کشمیر میں حملے کروائے ہیں بلکہ ان کی علیٰ اعلان ذمہ داری بھی قبول کی ہے۔ تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس طرح کی حمایت پاکستان نے سن اٹھاسی سے لے کر تقریبا دو ہزار چودہ تک کی۔ بھارت کی طرف سے سرحد پر باڑ لگانے کے بعد کسی بھی طرح کی مدد ممکن نہیں ہے۔
بھارت نے گزشتہ کچھ برسوں میں باڑھ لگانے کا عمل تیز کیا ہے، جس کی وجہ سے مداخلت کم ہوئی ہے۔ ساتھ ایشیاء ٹیڑرازم پورٹل کے مطابق دو ہزار چودہ سے دو ہزار انیس تک (چودہ فروری تک )بھارت کے زیرِ اتنظام کشمیر میں پندرہ سو بائیس ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ جب کہ سن 1988سے سن 2013تک تقریبا 43455 ہلاکتیں ہوئیں۔ پاکستان میں تجزیہ نگار ان گرتی ہوئی ہلاکتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسلام آباد کی مداخلت کم ہوئی ہے۔
تاہم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار طاہر احمد کا کہنا ہے کہ سن اٹھاسی کے مقابلے میں پاکستان کی طرف سے مداخلت کم ہوئی ہے لیکن یہ ختم نہیں ہوئی، ’’ہمار ے علاقے کرن، مچل، تنگدار اور گریز کی سرحد پاکستان کے نیلم ڈسٹرکٹ سے ملتی ہے اور مداخلت کا اس وقت یہ ہی سب سے بڑا راستہ ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا اری علاقہ ان کے چکوٹھی سے ملحق ہے اور ناوگام لیپا وادی سے ملتا ہے۔ اگر آپ ان تمام راستوں کو جا کر دیکھیں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ وہاں باڑ لگائی جائے۔ یہ بہت دشوار گزار پہاڑی علاقے ہیں، جہاں سے پاکستان ہتھیار اور بارود بھیج رہا ہے، جس کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو ہوا رہا ہے۔ چالیس ہزار سے زائد کشمیری اٹھاسی سے اب تک ہلاک ہوئے ہیں۔ مرنے والوں میں بھارتی سیکورٹی فورسز یا پولیس کی بہت کم تعداد ہے۔ اصل میں تو زیادہ تر عام شہری ہیں۔ ہم اس عسکریت پسندی سے بیزار ہیں۔‘‘
تاہم طاہر احمد اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ موجودہ عسکریت پسندی کی لہر کی بہت بڑی ذمہ دار نئی دہلی سرکار ہے، ’’پاکستان مالی اور لوجسٹک سائیڈ پر عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے لیکن اب پاکستانی عسکریت پسند یہاں نہیں آ رہے۔ بھارتی فوج کی طرف سے طاقت کا استعمال لوگوں کو پاکستان کے قریب کر رہا ہے اور نوجوان نسل عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔‘‘
کشمیر کی خود مختاری پر یقین رکھنی والی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے پاکستان چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی بھی نئی دہلی کو موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان کی مداخلت کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا لیکن آپ دیکھیں بھارت نے دو ہزار سولہ سے لے کر اب تک سینکڑوں کشمیریوں کو ہلاک کیا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ نئی دہلی خود سیاسی حل کا راستہ بند کر رہا ہے، جس سے جنگجوؤں اور عسکریت پسندوں کو فائدہ ہوگا۔ تو موجودہ صورتِ حال میں جہاں پاکستان کا تھوڑا بہت ہاتھ ہے وہیں بھارتی ریاست کا بے دریغ طاقت کا استعمال بھی دہشت گردی کی بہت بڑی وجہ ہے۔‘‘
کشمیر میں کرفیو، موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آج علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پر کشمیر کے زیادہ تر حصوں میں کرفیو نافذ ہے اور موبائل سمیت انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی ہے۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
تصویر: Picture Alliance/AP Photo/ K. M. Chauday
اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے زیادہ تر علیحدگی پسند لیڈروں کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا یا پھر انہیں گھروں پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
بھارتی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آنسو گیس کے ساتھ ساتھ گولیوں کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
مظاہرین بھارت مخالف نعرے لگاتے ہوئے حکومتی فورسز پر پتھر پھینکتے رہے۔ درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے جبکہ ایک کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
ایک برس پہلے بھارتی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہو جانے والے تئیس سالہ عسکریت پسند برہان وانی کے والد کے مطابق ان کے گھر کے باہر سینکڑوں فوجی اہلکار موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
برہان وانی کے والد کے مطابق وہ آج اپنے بیٹے کی قبر پر جانا چاہتے تھے لیکن انہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
تصویر: Getty Images/T.Mustafa
باغی لیڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے شروع ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں کی جوابی کارروائیوں میں اب تک ایک سو کے قریب انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C.McNaughton
کشمیر کے علیحدگی پسند لیڈروں نے وانی کی برسی کے موقع پر ایک ہفتہ تک احتجاج اور مظاہرے جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
ایک برس قبل آٹھ جولائی کو نوجوان علیحدگی پسند نوجوان لیڈر برہان وانی بھارتی فوجیوں کے ساتھ ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔