’پلوامہ واقعہ‘ بھارت میں کشمیری طلبہ ہراسانی کا شکار
18 فروری 2019کشمیریوں پر ہونے والے حملوں کے بعد نئی دہلی حکومت نے صوبائی حکومتوں کو ایڈوائزری جاری کر کے تمام ریاستوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں رہنے والے کشمیریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کی ہدایت دی ہے۔ دوسری طرف جموں و کشمیر سے باہر رہنے والے کشمیریوں کے ساتھ تشدد کے واقعات یا انہیں ملنے والی مبینہ دھمکیوں کے مد نظر نیم فوجی دستے سی آر پی ایف نے’’سی آر پی ایف مددگار‘‘ کے نام سے ایک ہیلپ لائن جاری کر کے کہا ہے کہ وہ کسی طرح کی زیادتی یا پریشانی کی صورت میں کسی بھی وقت ان سے رابطہ کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ پلوامہ میں گزشتہ ہفتے نیم فوجی دستے سینٹرل ریزور پولیس فورس’سی آر پی ایف‘ کے ایک قافلے پر خودکش دہشت گردانہ حملے میں پینتالیس سے زیادہ اہلکار ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے بھارت کے مختلف حصوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبہ اور کشمیری تاجروں کو مشتعل ہجوم کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے۔
کئی مقامات پر کشمیری طلبہ اور طالبات کے ہاسٹلوں پر حملے کئے گئے۔ بعض جگہوں پر کشمیریوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔کئی کالجوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے تعلیمی سال سے کشمیری طلبہ کو داخلہ نہیں دیں گے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی’اے ایم یو‘ نے کشمیری طلبہ کو یونیورسٹی کیمپس سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ دیا ہے۔ اے ایم یو سمیت کئی یونیورسٹیوں نے پلوامہ حملہ کے بعد'مبینہ طورپر مسرت کا اظہار‘ کے جرم میں کشمیری طلبہ کو اپنے یہاں سے معطّل کردیا ہے جب کہ کئی مقامات پر کشمیری طلبہ کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے مبینہ طور پر تعلق رکھنے والی ہندو شدت پسند تنظیمیں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل وغیرہ کے کارکنان کشمیروں کے خلاف تشدد کے واقعات میں پیش پیش بتائے جاتے ہیں۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والی اور دہلی کے جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی سابق نائب صدر شہلا راشد نے اس صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا، ’’پورے بھارت میں پرتشدد ہجوم کشمیری طلبہ کو حملے کا نشانہ بنارہے ہیں، انہیں گالیاں دے رہے ہیں، انہیں تعلیمی اداروں سے برطرف کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کرارہے ہیں اور یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ کشمیری طلبہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے اور پولیس بھی ان جھوٹے دعوؤں کو تسلیم کررہی ہے۔‘‘
یہاں سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں زیر تعلیم ایک کشمیری طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،’’اس وقت ہر کشمیری کے جان کو خطرہ ہے، صرف اس لیے کہ وہ کشمیری ہے خواہ اس کی آئیڈیالوجی اور خیالات کچھ بھی ہوں۔ یہ پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ کشمیری طلبہ کو ہر جگہ پریشان کیا جارہا ہے۔ دہرہ دون ہو، انبالہ ہو یا بنگلور۔ ہمیں یہاں دہلی میں بھی اپنی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے۔‘‘
کسی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے قومی دارالحکومت دہلی میں سیکورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ دہلی میں رہنے والے کشمیریوں اور طلبہ سمیت ہر شہری کی سلامتی اور حفاظت کو یقینی بنانا اس کی ذمہ داری ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ پلوامہ واقعے کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں اور عام مسلمانوں پر حملے ہوئے ہیں۔ دہلی میں بھی ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلم علاقوں اور ملی جلی آبادی والے علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے گھروں کے سامنے سے شدت پسند ہندو جماعتیں ریلیاں نکال رہی ہیں اور اشتعال انگیز نعرے لگا رہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر خان نے مزید کہا، ''ہم نے اس معاملے پر دہلی کے پولیس کمشنر سے بات کی ہے اور ان سے فوراً کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے تمام پولیس تھانوں کو چوکنا رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔‘‘
دریں اثنا ممبئی کے باوقار کرکٹ کلب آف انڈیا’’سی سی آئی‘‘ نے پلوامہ حملے کے خلاف احتجاج کے طور پر بریبورن اسٹڈیم میں واقع اپنے ہیڈکوارٹرمیں آویزاں پاکستان کے سابق کرکٹر اور وزیر اعظم عمران خان کی تصویر کو ڈھانپ دیا ہے۔ سی سی آئی کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ یہ قدم پاکستان کے خلاف ناراضگی کے اظہار کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔ اس اسٹیڈیم میں دنیا کے عظیم کرکٹ کھلاڑیوں کی تصویریں آویزاں ہیں۔ عمران خان اس اسٹیڈیم میں دو مرتبہ کھیل چکے ہیں۔ ان کی کپتانی میں1989ء میں پاکستان نے آسٹریلیا کو نہرو کپ میں ہرایا تھا۔
دوسری طرف پنجاب کرکٹ ایسوسی ایشن(پی سی اے) نے موہالی کرکٹ اسٹیڈیم میں آویزاں پاکستان کے تمام کرکٹ کھلاڑیوں کی تصویریں ہٹا دی ہیں۔ پی سی اے کے سکریٹری آر پی سنہا کا کہنا ہے کہ ان پر اس کے لیے کسی طرح کا دباؤ نہیں تھا۔ یہ ایک آزادانہ فیصلہ ہے اور پاکستانی کھلاڑیوں کی تصویریں ہٹانے کے لیے ایک ٹیم بنادی گئی ہے،’’دہشت گردانہ حملے سے ہر شخص دکھی ہے اور ایسوسی ایشن کا احساس ہے کہ قوم کے موڈ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے یہ ہمارا ایک معمولی قدم ہے۔‘‘ موہالی اسٹیڈیم میں جن پاکستانی کھلاڑیوں کی تصویریں ہیں ان میں عمران خان، جاوید میاں داد اور شاہد آفریدی شامل ہیں۔
بہر حال کشمیری طلبہ اور کشمیریوں کے خلاف پرتشدد واقعات کے باوجود مثبت اور امید افزاء بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا بھی ایک بڑا حلقہ موجود ہے جو نہ صرف کشمیریوں کے خلاف تشدد کی پروز مخالفت کررہا ہے بلکہ اس نے پریشان کشمیری طلبہ کو اپنے گھروں میں مہمان بنانے کی پیشکش بھی کی ہے۔