پناہ جرمنی میں، چھٹیاں وطن میں: مہاجر کو ٹویٹ بہت مہنگی پڑی
14 اگست 2019
جرمنی میں بطور مہاجر مقیم کئی افراد چھٹیاں منانے اپنے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک شامی مہاجر نے اپنے ملک میں چھٹیاں گزارنے سے متعلق ایک ٹویٹ کی، لیکن یہی عمل اسے بہت مہنگا پڑا۔
اشتہار
داؤد نبیل کا تعلق شام سے ہے اور وہ کچھ برسوں سے بطور مہاجر جرمنی میں مقیم ہیں۔ چھٹیوں کے دنوں میں وہ کچھ دنوں کے لیے وطن لوٹ گئے اور واپس آ کر اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، ''شام میں چھٹیاں منا کر ابھی واپس لوٹا ہوں۔ بہت اچھا وقت گزرا۔‘‘
کچھ ہی دیر بعد جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرین و ترک وطن (بی اے ایم ایف) نے نبیل کی ٹویٹ کے جواب میں ایک طویل پیغام لکھ ڈالا۔ اس وضاحتی پیغام میں درج تھا، ''اپنے آبائی وطن واپس جانا جرمنی میں فراہم کی گئی سیاسی پناہ واپس لے لیے جانے کی ایک مضبوط وجہ ہو سکتا ہے۔ جب پناہ دیے جانے کا جواز ہی ختم ہو جائے تو تسلیم شدہ مہاجر کا درجہ بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
داؤد نبیل تنہا نہیں ہیں، اس سے پہلے بھی جرمنی میں مقیم کئی مہاجرین نے اپنے اپنے آبائی ممالک کو غیر اعلانیہ اور محدود عرصے کے لیے واپسی اور وہاں سیر سے متعلق پیغامات اور تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں، تو بی اے ایم ایف کی جانب سے انہیں بھی ایسے ہی پیغامات موصول ہوئے تھے۔
لیکن کیا کسی مہاجر کے اپنے آبائی وطن واپس جانے سے اسے حاصل سیاسی پناہ ختم کی جا سکتی ہے؟ ڈی ڈبلیو اور چار دیگر یورپی میڈیا ہاؤسز کے باہمی تعاون سے مہاجرین سے متعلق شروع کردہ ویب سائٹ 'مہاجر نیوز‘ نے اس وفاقی جرمن دفتر سے رابطہ کر کے پوچھا تو بی اے ایم ایف کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہے لیکن کیوں کہ ہر معاملہ انفرادی طور پر دیکھا جاتا ہے، اس لیے کوئی حتمی بیان نہیں دیا جا سکتا۔
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں کا تعلق کن ممالک سے؟
وفاقی جرمن دفتر روزگار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے بارہ فیصد افراد غیر ملکی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر تک ملک میں چالیس لاکھ اٹھاون ہزار غیر ملکی شہری برسر روزگار تھے۔ ان ممالک پر ایک نظر اس پکچر گیلری میں:
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
1۔ ترکی
جرمنی میں برسر روزگار غیر ملکیوں میں سے سب سے زیادہ افراد کا تعلق ترکی سے ہے۔ ایسے ترک باشندوں کی تعداد 5 لاکھ 47 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Nietfeld
2۔ پولینڈ
یورپی ملک پولینڈ سے تعلق رکھنے والے 4 لاکھ 33 ہزار افراد گزشتہ برس نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
3۔ رومانیہ
رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3 لاکھ 66 ہزار افراد جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: AP
4۔ اٹلی
یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کے بھی 2 لاکھ 68 ہزار شہری جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPHOTO
5۔ کروشیا
یورپی ملک کروشیا کے قریب 1 لاکھ 87 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Gerten
6۔ یونان
یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے قریب 1 لاکھ 49 ہزار باشندے جرمنی میں برسر روزگار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Steffen
7۔ بلغاریہ
جرمنی میں ملازمت کرنے والے بلغاریہ کے شہریوں کی تعداد بھی 1 لاکھ 34 ہزار کے قریب ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
8۔ شام
شامی شہریوں کی بڑی تعداد حالیہ برسوں کے دوران بطور مہاجر جرمنی پہنچی تھی۔ ان میں سے قریب 1 لاکھ 7 ہزار شامی باشندے اب روزگار کی جرمن منڈی تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kögel
9۔ ہنگری
مہاجرین کے بارے میں سخت موقف رکھنے والے ملک ہنگری کے 1 لاکھ 6 ہزار شہری جرمنی میں کام کر رہے ہیں۔
جرمنی میں کام کرنے والے روسی شہریوں کی تعداد 84 ہزار ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Schmidt
17۔ افغانستان
شامی مہاجرین کے بعد پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والوں میں افغان شہری سب سے نمایاں ہیں۔ جرمنی میں کام کرنے والے افغان شہریوں کی مجموعی تعداد 56 ہزار بنتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-U. Koch
19۔ بھارت
بھارتی شہری اس اعتبار سے انیسویں نمبر پر ہیں اور جرمنی میں کام کرنے والے بھارتیوں کی مجموعی تعداد 46 ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: Bundesverband Deutsche Startups e.V.
27۔ پاکستان
نومبر 2018 تک کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں برسر روزگار پاکستانی شہریوں کی تعداد 22435 بنتی ہے۔ ان پاکستانی شہریوں میں قریب دو ہزار خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Reinders
13 تصاویر1 | 13
شامی نژاد جرمن وکیل نہلہ عثمان کا کہنا ہے کہ جرمنی میں مقیم مہاجرین اگر کبھی اپنے وطن لوٹیں بھی تو انہیں سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اپنے سفر سے متعلق پیغامات یا تصاویر شائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
'مہاجر نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے نہلہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ صرف سوشل میڈیا پر شائع کردہ پیغامات کسی شخص کو حاصل مہاجر کا درجہ ختم کرنے کے لیے ناکافی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی انہیں اہم شواہد کے طور پر پیش تو کیا ہی جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے پاس جب ثبوت موجود ہوں کہ کوئی مہاجر واپس اپنے آبائی وطن گیا تھا، تو وہ اس کی سیاسی پناہ ختم کرنے کا عمل شروع کر کے مذکورہ مہاجر سے وطن واپس جانے کی وجوہات دریافت کر سکتے ہیں۔‘‘
اس ضمن میں اہم بات یہ بھی ہے کہ عام طور پر مہاجرین کو اس لیے جرمنی میں سیاسی پناہ دی جاتی ہے کہ اُن کے آبائی وطنوں میں ان کی جانیں محفوظ نہیں ہوتیں۔ اپنے ملک واپسی کی صورت میں یہ جواز ختم ہو جاتا ہے اور اسی وجہ سے انہیں حاصل مہاجر کا درجہ بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ مہاجرین مخالف عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت اے ایف ڈی ایسے واقعات پر شدید تنقید کرتی رہی ہے اور ایسے سیاسی عناصر کے دباؤ کے باعث جرمن ادارے بھی ایسے معاملات کو بہت سنجیدگی سے دیکھتے ہیں۔
ماہر قانون نہلہ عثمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی انتہائی مجبوری کی صورت میں اگر کسی مہاجر کو اپنے وطن واپس جانا پڑے تو پھر اس کو دی گئی سیاسی پناہ منسوخ نہیں کی جا سکتی۔
محی الدین حسین (ش ح / م م)
پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی اپیلیں: فیصلے کن کے حق میں؟
رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران جرمن حکام نے پندرہ ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلوں پر فیصلے سنائے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کس ملک کے کتنے پناہ گزینوں کی اپیلیں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
1۔ افغان مہاجرین
رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران 1647 افغان مہاجرین کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے بطور مہاجر تسلیم، ثانوی تحفظ کی فراہمی یا ملک بدری پر پابندی کے درجوں میں فیصلے کرتے ہوئے مجموعی طور پر 440 افغان شہریوں کو جرمنی میں قیام کی اجازت دی گئی۔ یوں افغان تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح قریب ستائیس فیصد رہی۔
تصویر: DW/M. Hassani
2۔ عراقی مہاجرین
بی اے ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق حکام نے گیارہ سو عراقی مہاجرین کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے اور ایک سو چودہ عراقیوں کو مختلف درجوں کے تحت جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔ یوں عراقی مہاجرین کی کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.Nietfeld
3۔ روسی تارکین وطن
روس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد تارکین وطن کی اپیلیں بھی نمٹائی گئیں اور کامیاب اپیلوں کی شرح دس فیصد سے کچھ کم رہی۔ صرف تیس روسی شہریوں کو مہاجر تسلیم کیا گیا جب کہ مجموعی طور پر ایک سو چار روسی شہریوں کو جرمنی میں عارضی قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
4۔ شامی مہاجرین
جرمنی میں شامی مہاجرین کی اکثریت کو عموما ابتدائی فیصلوں ہی میں پناہ دے دی جاتی ہے۔ رواں برس کی پہلی ششماہی کے دوران بی اے ایم ایف کے حکام نے پناہ کے مسترد شامی درخواست گزاروں کی قریب ایک ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے جن میں سے قریب پیتنالیس فیصد منظور کر لی گئیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/P. Giannokouris
5۔ سربیا کے تارکین وطن
مشرقی یورپی ملک سربیا سے تعلق رکھنے والے 933 تارکین وطن کی اپیلیوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف پانچ منظور کی گئیں۔ یوں کامیاب اپیلوں کی شرح 0.5 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow
6۔ پاکستانی تارکین وطن
اسی عرصے کے دوران جرمن حکام نے 721 پاکستانی تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے۔ ان میں سے چودہ منظور کی گئیں اور اپیلوں کی کامیابی کی شرح قریب دو فیصد رہی۔ آٹھ پاکستانیوں کو بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دی گئی جب کہ تین کو ’ثانوی تحفظ‘ فراہم کرتے ہوئے جرمنی میں قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: DW/I. Aftab
7۔ مقدونیہ کے تارکین وطن
مشرقی یورپ ہی کے ملک مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے 665 تارکین وطن کی اپیلوں پر بھی فیصلے سنائے گئے جن میں سے صرف 9 منظور کی گئیں۔
تصویر: DW/E. Milosevska
8۔ نائجرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے چھ سو تارکین وطن کی اپیلیں نمٹائی گئیں جن میں کامیاب درخواستوں کی شرح تیرہ فیصد رہی۔
تصویر: A.T. Schaefer
9۔ البانیا کے تارکین وطن
ایک اور یورپی ملک البانیا سے تعلق رکھنے والے 579 تارکین وطن کی ثانوی درخواستوں پر فیصلے کیے گئے جن میں سے صرف نو افراد کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
10۔ ایرانی تارکین وطن
جنوری سے جون کے اواخر تک 504 ایرانی شہریوں کی اپیلوں پر بھی فیصلے کیے گئے جن میں سے 52 کو بطور مہاجر تسلیم کیا گیا، چار ایرانی شہریوں کو ثانوی تحفظ دیا گیا جب کہ انیس کی ملک بدری پر پابندی عائد کرتے ہوئے جرمنی رہنے کی اجازت دی گئی۔ یوں ایرانی تارکین وطن کی کامیاب اپیلوں کی شرح پندرہ فیصد سے زائد رہی۔