جرمنی عنقريب يورپی يونين کی صدارت سنبھال رہا ہے۔ امکان ہے کہ اس دوران جرمن حکومت سياسی پناہ سے متعلق يورپی قوانين ميں اصلاحات متعارف کرانے پر بھرپور توجہ دے گی۔ مگر يہ اصلاحات پناہ کے قوانين کو مزيد سخت بنائيں گی يا نرم؟
اشتہار
اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت دنيا بھر ميں پناہ کی تلاش ميں اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے والے افراد کی تعداد اسی ملين سے زائد ہے، جو دنيا کی مجموعی آبادی کے ايک فيصد کے برابر بنتی ہے۔ يوں سمجھ ليجيے کہ جرمنی کی مجموعی آبادی کے آس پاس ہی۔ يہ سب ہی يورپ پہنچنے کے خواہاں نہيں بل کہ ہر کوئی اپنے خطے ميں پناہ کی تلاش ميں ہے۔ نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا نے ہجرت کی رفتار کم کر دی ہے۔ يہ يورپ کے ليے سياسی پناہ کے نظام ميں اصلاحات متعارف کرانے کا ايک موقع ہے۔
ڈبلن ريگوليشن کے مطابق مہاجرين يا پناہ گزينوں کا اندراج اور ان کی پناہ کی درخواستوں پر کارروائی ان ہی ملکوں ميں ہونی چاہيے، جن ميں وہ سب سے پہلے اترے ہوں۔ جغرافيائی لحاظ سے يہ يونان اور اٹلی ہيں۔ سن 2015 اور سن 2016 ميں جب جنوبی ايشيا، مشرق وسطی اور شمالی افريقہ کے خطوں سے لاکھوں افراد نے يورپ کا رخ کيا، تو يہ نظام اور بالخصوص چند ممالک شديد دباؤ کا شکار ہو گئے تھے۔ چند روز قبل جرمن وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا، ''يورپ ميں پناہ کا موجودہ نظام اب زيادہ کارآمد نہيں رہا اور اس ميں بہتری کی گنجائش ہے۔ ہميں فوراً ايک نئے آغاز کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی ايک عرصے سے پناہ کے يورپی نظام ميں اصلاحات کا مطالبہ کرتا آيا ہے۔ ايسی کوششوں کا مقصد رکن ملکوں ميں مہاجرين و پناہ گزينوں کی منصفانہ تقسيم ہے۔ اس ضمن ميں يورپی کميشن نے سن 2016 ميں ايک اصلاحاتی پيکج پيش کيا تاہم چند رکن رياستوں نے اس کی سخت مخالفت کی، بالخصوص 'وائس گراڈ‘ نامی گروپ کے رکن ملکوں نے جن ميں پولينڈ، ہنگری، چيک جمہوريہ اور سلوواکيہ شامل تھے۔
پاکستان ميں ’ايجنٹ مافيا‘ اب بھی سرگرم، حکام بھی الزامات کی زد ميں
04:51
جرمنی يورپی کميشن کی صدارت سنبھالنے کے بعد ايک نيا آغاز چاہتا ہے۔ جرمنی ميں مہاجرين کے ليے کام کرنے والے اداروں کا بھی حکومت پر زور ہے کہ صدارت کی مدت کو اس مقصد کے ليے استعمال کيا جائے۔ تاہم ان تنظيموں کو وزير داخلہ ہورسٹ زيہوفر کی اصلاحات ميں چند نکتے پسند نہيں۔ سب سے اہم يہ کہ زيہوفر دفاع پر زور ديتے ہيں۔ ان کا موقف ہے کہ بلاک کی بيرونی سرحدوں پر نگرانی بڑھائی جائے اور صرف ان کو موقع ديا جائے، جن کا يورپ ميں سياسی پناہ کا واقعی کوئی امکان ہے۔ زيہوفر کی تجاويز کے مطابق دوسروں کو فوری طور پر ملک بدر کر ديا جانا چاہيے اور تقسيم بھی صرف انہی کی ہونی چاہيے، جن کی درخواستيں منظور ہوں۔ انہوں نے پچھلے ہفتے ہی کہا ہے، ''ہم تحفظ کے مستحق لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حامی ہيں مگر قانون کی بالادستی کو بھی يقينی بنانا ہو گا۔ جن لوگوں کو تحفظ کی ضرورت نہيں، انہيں اپنے ممالک واپس جانا ہو گا۔‘‘
پرو ازيل نامی ايک ادارے سے وابستہ وابيکے يوڈتھ کا کہنا ہے کہ ظلم و تشدد سے فرار ہونے والوں کو يہ موقع فراہم ہونا چاہيے کہ وہ اپنی داستان بيان کر سکيں اور ان کی بات سنی جائے۔ اسی کے بعد اس نتيجے پر پہنچا جائے کہ آيا متعلقہ شخص کو پناہ درکار ہے۔ يوڈتھ کو البتہ جرمن وزير داخلہ کے منصوبے ميں انہيں اس کی گنجائش دکھائی نہيں ديتی۔
دنيا بھر ميں کہاں کہاں مہاجرين کے بحران جاری ہيں؟
اس وقت دنيا بھر ميں بے گھر اور ہجرت پر مجبور افراد کی تعداد تاريخ ميں اپنی اونچی ترين سطح پر ہے۔ اس تصويری گيلری ميں آپ جان سکتے ہيں کہ اس وقت کن کن ممالک کو مہاجرين کے بحرانوں کا سامنا ہے۔
رواں سال مئی کے اواخر ميں افريقی ملک برونڈی کے پناہ گزينوں کی تعداد 424,470 تھی۔ ان مہاجرين ميں سے تقريباً ستاون فيصد نے تنزانيہ ميں جبکہ بقيہ نے يوگينڈا، کانگو اور روانڈا ميں پناہ لے رکھی ہے۔ برونڈی ميں اقتصادی بد حالی، کھانے پينے کی اشياء کی قلت و بيمارياں وسيع پيمانے پر فرار کا سبب بن رہی ہيں۔ يو اين ايچ سی آر نے برونڈی کے مہاجرين کے ليے اس سال 391 ملين امريکی ڈالر کی امداد کی اپيل کر رکھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Kasamani
کانگو
مئی کے اختتام پر افريقہ ميں صحارا ريگستان کے نيچے واقع ممالک ميں پناہ ليے ہوئے کانگو کے مہاجرين کی مجموعی تعداد 735,000 تھی۔ کانگو کے مختلف علاقوں ميں مسلح تنازعات جاری ہيں اور اس ملک کو درپيش مہاجرين کے بحران کو انتہائی پيچيدہ تصور کيا جاتا ہے۔ سن 2017 سے اب تک اس ملک کے ملين افراد بے گھر ہو چکے ہيں اور اس کے علاوہ پڑوسی ملکوں کے بھی لگ بھگ پانچ لاکھ مہاجرين نے کانگو ميں پناہ لے رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Akena
عراق
عراق ميں جاری مسلح تنازعے کے سبب سن 2014 سے اب تک اس ملک کے تين ملين شہری بے گھر ہو چکے ہيں۔ تازہ ترين اعداد و شمار کے مطابق 2.1 ملين عراقی شہری اس وقت بے گھر ہيں اور اپنے ملک کے اندر ہی پناہ گاہوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ 260,000 عراقی تارکين وطن پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت بھی کر چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/K. Al-Mousily
روہنگيا مہاجرين
پچيس اگست سن 2017 سے لے کر رواں سال مئی کے اواخر تک پناہ کے ليے بنگلہ ديش ہجرت کرنے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد 713,000 ہے۔ روہنگيا مسلمان، ميانمار ميں ايک اقليتی گروپ ہيں جن کے پاس کسی ملک کی شہريت نہيں۔ اقوام متحدہ اپنی متعدد رپورٹوں ميں ميانمار کی فوج کے روہنگيا کے خلاف اقدامات کو ’نسل کشی‘ سے تعبير کر چکا ہے۔
تصویر: DW/ P. Vishwanathan
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں اس وقت 13.1 ملين افراد کو ہنگامی بنيادوں پر مدد درکار ہے۔ اس ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 6.6 ملين ہے جبکہ سن 2011 ميں خانہ جنگی کے آغاز سے اب تک ساڑھے پانچ ملين شامی باشندے پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
وسطی افريقی جمہوريہ
وسطی افريقی جمہوريہ دنيا کے غريب ترين ممالک ميں سے ايک ہے۔ اس وقت ديگر ملکوں ميں پناہ کے ليے موجود اس ملک کے پناہ گزينوں کی تعداد 582,000 ہے جبکہ اپنے ہی ملک ميں بے گھر افراد کی تعداد 687,398 ہے۔ وہاں غربت کے علاوہ متصادم مسلح گروہوں اور امن و امان کی ابتر صورتحال کے سبب مقامی لوگ ہجرت پر مجبور ہو رہے ہيں۔
تصویر: Imago/alimdi
يورپ
يورپ ميں سمندری راستوں سے اس سال اب تک 32,601 مہاجرين پہنچ چکے ہيں جبکہ بحيرہ روم کے راستے پناہ کے سفر ميں 649 ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے مطابق 2017ء ميں172,301 مہاجرين، 2016ء ميں 362,753، سن 2015 ميں 1,015,078 اور سن 2014 ميں 216,054 مہاجرين يورپ پہنچے۔ ان مہاجرين کا تعلق مشرق وسطی، افريقہ، مشرقی يورپ اور ايشيا سے ہے۔
تصویر: imago/Anan Sesa
يمن
يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف سعودی قيادت ميں عسکری اتحاد کی کارروائی کے سبب اب تک 192,352 افراد پڑوسی ملکوں ميں پناہ لے چکے ہيں۔ مشرق وسطی کے غريب ملکوں ميں سے ايک يمن ميں غربت اور عدم استحکام کے علاوہ مسلح تنازعہ لوگوں کے فرار کا سبب بنا۔ اس وقت اس ملک ميں موجود بائيس ملين سے زائد افراد کو انسانی بنيادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/A. Stahl
نائجيريا
اس افريقی ملک ميں دہشت گرد تنظيم بوکو حرام کی کارروائيوں کے نتيجے ميں دو لاکھ سے زائد شہری ہجرت کر چکے ہيں جبکہ ملک ميں ہی بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد اس وقت 1.7 ملين بنتی ہے۔ نائجر، چاڈ اور کيمرون ميں بھی بوکو حرام کی وجہ سے لگ بھگ پانچ لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہيں۔
تصویر: imago/epd/A. Staeritz
جنوبی سوڈان
جنوبی سوڈان ميں سن 2013 سے جاری خونريز مسلح تنازعے کے سبب اس ملک کے 2.4 ملين شہری پناہ کے ليے ديگر ممالک ہجرت کر چکے ہيں۔ علاوہ ازيں ملک کے اندر بے گھر ہو جانے والے افراد کی تعداد بھی لاکھوں ميں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Forrest
پاکستان
افغانستان اور روس اور امريکا کی جنگ کے دور سے پاکستان ميں لاکھوں افغان پناہ گزين پناہ ليے ہوئے ہيں۔ يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان ميں رجسٹرڈ افغان مہاجرين کی تعداد قريب 1.4 ملين ہے۔ ان مہاجرين کی ديکھ بھال کے علاوہ انہيں اتنی طويل مدت تک کے ليے بنيادی سہوليات کی فراہمی محدود وسائل والے ملک پاکستان کے ليے ايک چيلنج ثابت ہوا ہے۔