پناہ کے ليے ميانمار سے بنگلہ ديش کے ليے فرار ہونے والے سات روہنگيا مسلمان مہاجرين ڈوب کر ہلاک ہو گئے ہيں۔ يہ ہلاکتيں کل اور آج کے درميان دو مختلف واقعات ميں ہوئيں۔
اشتہار
بنگلہ ديشی ساحل کے قريب آج بروز منگل مزید چار روہنگيا مہاجرين ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ ہلاک ہونے والوں ميں ايک مرد، ايک عورت اور دو بچے شامل ہيں۔ بنگلہ ديشی پوليس نے بتايا کہ ان چاروں مہاجرين کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب لکڑی کی وہ کشتی جس پر وہ سوار تھے، ساحل سمندر سے قريب الٹ گئی۔ بنگلہ ديش کے جنوب ميں کوکس بازار کی ساحلی پٹی کے قريب پيش آنے والے اس واقعے ميں سينتيس مہاجرين کو ڈوبنے سے بچا بھی ليا گيا۔ اکھيا پوليس اسٹيشن کے افسر محمد ابوالخير کے بقول ان ميں سے گيارہ کو ہسپتال منتقل کر ديا گيا ہے اور ان کی حالت نازک بتائی جا رہی ہيں۔ حادثہ تيز بارش کے سبب پيش آيا اور اس ميں بچ جانے والوں نے بتايا کہ انہوں نے لکڑی کی اس کشتی کو سينتيس ڈالر کے برابر مقامی کرنسی ميں خريدا تھا۔ حادثے ميں ہلاک ہو جانے والے اور بچ جانے والے تمام مہاجرين کا تعلق ميانمار کی شمالی رياست راکھين کے علاقے بوتھياڈوانگ سے ہے۔
ايک روز قبل پيش آنے والے ايک مختلف واقعے ميں تين کمسن بچے ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ ان بچوں کی عمريں تين تا دس ماہ کے درميان تھيں۔ یہ اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی کشتی ساحل کے قریب پہنچنے ہی والی تھی اور وہ اپنی ماؤں کی گودوں سے گر گئے۔ ٹيکناف پوليس اسٹيشن کے افسر مياں الدين خان نے بتايا کہ پانی ميں گرے ہوئے بچے موجوں کے ساحلی چٹانوں سے ٹکرانے کے نتيجے ميں ہلاک ہوئے۔ ان ميں سے دو بچوں کی لاشيں پير کو نکال لی گئی تھيں جبکہ ايک کی نعش آج منگل کو سمندر سے نکالی گئی۔
ميانمار کی شمالی رياست راکھين ميں ملکی فوج نے روہنگيا عسکریت پسندوں کے خلاف اس سال اگست کے اواخر ميں آپريشن شروع کيا تھا۔ اس وقت سے اب تک قريب چھ لاکھ روہنگيا مسلمان راکھين سے فرار ہو کر پناہ کے ليے بنگلہ ديش پہنچ چکے ہيں۔ يہ مہاجرين فوج پر تشدد، جنسی زيادتی، نسل کشی اور ديگر ايسے عوامل کے الزامات عائد کرتے ہيں۔ اقوام متحدہ کی کئی رپورٹيں اور متعدد عہديدار مبينہ تشدد کے اس سلسلے کو روکنے ميں ناکامی پر ميانمار حکومت پر تنقيد کرتے آئے ہيں۔ اگست کے اواخر سے اب تک دو سو روہنگيا مسلمان ڈوب کر بھی ہلاک بھی چکے ہيں۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘