پناہ کی درخواستیں: فیصلوں میں تاخیر، مہاجرین مقدمے کرنے لگے
شمشیر حیدر8 اگست 2016
سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے میں تاخیر کے باعث جرمنی میں تارکین وطن کی جانب سے مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر (بی اے ایم ایف) کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے کے این اے کی فرینکفرٹ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مہاجرین اور تارکین وطن کی جانب سے بی اے ایم ایف کے خلاف دائر کیے جانے والے مقدمات اور شکایات میں 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جرمن صوبے ہَیسے کے نشریاتی ادارے HR کی ایک رپورٹ کے مطابق ان مقدمات کی وجہ مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر کی جانب سے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے میں سست روی بنی ہے۔ گزشتہ برس ایک ملین سے زائد تارکین وطن جرمنی پہنچے تھے۔ شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں پر ترجیحی بنیادوں پر فیصلے سنا دیے جاتے ہیں تاہم پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کی درخواستوں پر فیصلے سنانے میں کافی وقت لگتا ہے۔
بی اے ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس مئی کے مہینے میں مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر کے خلاف 5805 مقدمات دائر کیے گئے جب کہ اسی سال مارچ کے مہینے میں دائر کیے جانے والے ایسے مقدمات کی تعداد 3271 تھی۔ یوں بی اے ایم ایف کے خلاف مقدمات کی شرح میں قریب 80 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں
03:23
اس جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق بی اے ایم ایف کے خلاف دائر مقدمات کی حقیقی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ رپورٹ میں جو اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں، وہ صرف ان مہاجرین اور تارکین وطن کے بارے میں ہیں، جن کی درخواستوں پر ابھی تک بی اے ایم ایف نے کوئی فیصلہ نہیں کیا۔
بی اے ایم ایف نے تاہم اس تاثر کی نفی کی ہے کہ ادارے کی جانب سے تارکین وطن کی درخواستوں پر فیصلے کرنے میں سُستی کی جا رہی ہے۔ اس ادارے کے مطابق اس وقت جرمنی میں پناہ کے خواہش مند قریب پانچ لاکھ تارکین وطن کی درخواستیں زیر غور ہیں جب کہ ادارے کو ماضی میں کبھی اتنی بڑی تعداد میں درخواستیں موصول نہیں ہوئی تھیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر بی اے ایم ایف کے خلاف شکایات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ تاہم ادارے کے مطابق اہلکاروں کی تعداد میں اضافے اور درخواستوں کی ڈیجیٹلائزیشن کے بعد پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یکم جولائی 2015ء کے بعد سے جرمنی میں پہلی مرتبہ سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے تارکین وطن کی درخواستوں پر اوسطاﹰ چار ماہ میں فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ اتنے کم دورانیے میں اتنی بڑی تعداد میں پناہ کی درخواستوں پر فیصلے ماضی میں کبھی نہیں کیے گئے۔ مہاجرین اور ترک وطن سے متعلق وفاقی جرمن دفتر کی کوشش ہے کہ مستقبل میں سیاسی پناہ کی کسی بھی درخواست پر تین ماہ کے اندر اندر فیصلہ سنا دیا جائے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران ہزارہا پاکستانی بھی مغربی یورپ پہنچے ہیں۔ یونان سے ایک پاکستانی افتخار علی نے ہمیں کچھ تصاویر بھیجی ہیں، جو یورپ میں بہتر زندگی کے خواب اور اس کے برعکس حقیقت کے درمیان تضاد کی عکاس ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
بہتر مستقبل کے خواب کی تعبیر، بیت الخلا کی صفائی
جو ہزاروں پاکستانی تارکین وطن اپنے گھروں سے نکلے، ان کی منزل جرمنی و مغربی یورپی ممالک، اور خواہش ایک بہتر زندگی کا حصول تھی۔ شاید کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ خطرناک پہاڑی اور سمندری راستوں پر زندگی داؤ پر لگانے کے بعد انہیں ایتھنز میں پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں بیت الخلا صاف کرنا پڑیں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
ایجنٹوں کے وعدے اور حقیقت
زیادہ تر پاکستانی صوبہ پنجاب سے آنے والے تارکین وطن کو اچھے مستقبل کے خواب انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے ایجنٹوں نے دکھائے تھے۔ جرمنی تک پہنچانے کے ابتدائی اخراجات پانچ لاکھ فی کس بتائے گئے تھے اور تقریباﹰ ہر کسی سے یہ پوری رقم پیشگی وصول کی گئی تھی۔ جب یہ پاکستانی شہری یونان پہنچے تو مزید سفر کے تمام راستے بند ہو چکے تھے۔ اسی وقت ایجنٹوں کے تمام وعدے جھوٹے اور محض سبز باغ ثابت ہوئے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پاکستانیوں سے امتیازی سلوک کی شکایت
شام اور دیگر جنگ زدہ ممالک سے آنے والے تارکین وطن کو بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک جانے کی اجازت ہے۔ یورپی حکومتوں کے خیال میں زیادہ تر پاکستانی شہری صرف اقتصادی وجوہات کی بنا پر ترک وطن کرتے ہیں۔ اسی لیے انہیں یورپ میں پناہ دیے جانے کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ لیکن اکثر پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ یونان میں حکام ان سے نامناسب اور امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
کیمپ میں رہنا ہے تو صفائی تم ہی کرو گے!
ایسے درجنوں پاکستانی تارکین وطن کا کہنا ہے کہ یونانی حکام نے مہاجر کیمپوں میں صفائی کا کام صرف انہی کو سونپ رکھا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ پاکستانی شہریوں کو بالعموم مہاجر کیمپوں میں رکھنے کی اجازت نہیں ہے تاہم انہیں وہاں عارضی قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی گئی ہے کہ وہاں صفائی کا کام صرف وہی کریں گے۔
تصویر: Iftikhar Ali
پردیس میں تنہائی، مایوسی اور بیماری
سینکڑوں پاکستانی تارکین وطن اپنے یونان سے آگے کے سفر کے بارے میں قطعی مایوس ہو چکے ہیں اور واپس اپنے وطن جانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے متعدد مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو چکے ہیں۔ ایک یونانی نیوز ویب سائٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے دو پاکستانی پناہ گزینوں نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔
تصویر: Iftikhar Ali
کم اور نامناسب خوراک کا نتیجہ
یونان میں پناہ کے متلاشی زیادہ تر پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ مہاجر کیمپوں میں انہیں ملنے والی خوراک بہت کم ہوتی ہے اور اس کا معیار بھی ناقص ۔ ایسے کئی تارکین وطن نے بتایا کہ انہیں زندہ رہنے کے لیے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا ہی میسر ہوتا ہے۔ ان حالات میں اکثر افراد ذہنی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر لاغر اور بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
وطن واپسی کے لیے بھی طویل انتظار
بہت سے مایوس پاکستانی پناہ گزینوں کے لیے سب سے اذیت ناک مرحلہ یہ ہے کہ وہ اپنے پاس کوئی بھی سفری دستاویزات نہ ہونے کے باعث اب فوراﹰ وطن واپس بھی نہیں جا سکتے۔ ان کے بقول ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے لازمی جانچ پڑتال کے بعد انہیں عبوری سفری دستاویزات جاری کیے جانے کا عمل انتہائی طویل اور صبر آزما ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
غریب الوطنی میں بچوں کی یاد
پاکستان کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والا اکتالیس سالہ سجاد شاہ بھی اب واپس وطن لوٹنا چاہتا ہے۔ تین بچوں کے والد سجاد شاہ کے مطابق اسے اپنے اہل خانہ سے جدا ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں اور آج اس کے مالی مسائل پہلے سے شدید تر ہیں۔ سجاد کے بقول مہاجر کیمپوں میں کھیلتے بچے دیکھ کر اسے اپنے بچے بہت یاد آتے ہیں اور اسی لیے اب وہ جلد از جلد واپس گھر جانا چاہتا ہے۔
تصویر: Iftikhar Ali
اجتماعی رہائش گاہ محض ایک خیمہ
دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مہاجرین اور پناہ گزینوں کو یونانی حکام نے پختہ عمارات میں رہائش فراہم کی ہے جب کہ پاکستانیوں کو زیادہ تر عارضی قیام گاہوں کے طور پر زیر استعمال اجتماعی خیموں میں رکھا گیا ہے۔ یہ صورت حال ان کے لیے اس وجہ سے بھی پریشان کن ہے کہ وہ یورپ کی سخت سردیوں کے عادی نہیں ہیں۔
تصویر: Iftikhar Ali
جب انتظار کے علاوہ کچھ نہ کیا جا سکے
یونان میں ان پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی سفارت خانے کو اپنے لیے سفری دستاویزات کے اجراء کی درخواستیں دے چکے ہیں اور کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی اب تک انتظار ہی کر رہے ہیں۔ ایسے ایک پاکستانی شہری کے مطابق چند افراد نے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت سے بھی اپنی وطن واپسی میں مدد کی درخواست کی لیکن جواب ملا کہ واپسی کے لیے درکار سفری دستاویزات صرف پاکستانی سفارتی مراکز ہی جاری کر سکتے ہیں
تصویر: Iftikhar Ali
پناہ نہیں، بس گھر جانے دو
یونان میں بہت سے پاکستانی تارکین وطن نے اسلام آباد حکومت سے درخواست کی ہے کہ ان کی جلد از جلد وطن واپسی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ ان افراد کا دعویٰ ہے کہ ایتھنز میں پاکستانی سفارت خانہ ’بار بار کے وعدوں کے باوجود کوئی مناسب مدد نہیں کر رہا‘۔ احسان نامی ایک پاکستانی تارک وطن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’نہ ہم واپس جا سکتے ہیں اور نہ آگے، پس پچھتاوا ہے اور یہاں ٹائلٹس کی صفائی کا کام۔‘‘