پناہ کی درخواست پر کارروائی ميں مترجم کا کردار انتہائی اہم
عاصم سلیم Holly Young
23 نومبر 2017
جرمنی ميں پناہ کے متلاشی افراد کو دستاويزی کارروائی کے ليے مترجم کی ضرورت پڑتی ہے، جو ان کی بات سچائی کے ساتھ متعلقہ حکام تک پہنچا سکيں۔ تاہم در حقيقت اکثر مترجم نا تجربہ کار ہوتے ہيں اور سچائی سے کام بھی نہيں کرتے۔
اشتہار
الہاريتھ آلا کافی پريشان بيٹھا تھا۔ وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين کے ايک اہلکار کے ساتھ کچھ ہی دير ميں صبح کے ساڑھے آٹھ بجے اس کی ملاقات تھی جس ميں وہ اہلکار آلا کے ماضی کا جائزہ ليتے ہوئے اس کے مستقبل کا فيصلہ کرنے والا تھا۔ اس کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ الہاريتھ آلا کو اپنے آبائی ملک عراق ميں اپنی زندگی، موصول ہونے والی دھمکيوں، اغواء ہونے، اپنے والد کے قتل وغيرہ کے بارے ميں تمام تفصيلات بيان کرنا تھيں اور وہ بھی قانونی سطح کی باريکی کے ساتھ۔ اگلے قريب چار گھنٹوں ميں اس نے متعلقہ افسر کے سامنے اپنا ماضی بيان کيا۔ الہاريتھ نے تفصيلات عربی زبان ميں بيان کيں، جنہيں ايک مترجم نے افسر تک جرمن زبان ميں پہنچايا۔
يہ عراقی پناہ گزين خود تو نہيں جانتا تھا کہ اس کا انٹرويو کيسا گيا ليکن وہ پر اعتماد تھا۔ بعدازاں انٹرويو لينے افسر نے اس سے کہا کہ جرمنی کو اس جيسے لوگوں کی ضرورت ہے۔ الہاريتھ پانچ زبانيں بولنے کی صلاحيت رکھتا ہے اور وہ پيشے کے اعتبار سے ايک کيميا دان ہے۔ اپنی زندگی ميں ايک موقع پر آلا مترجم کے طور پر بھی ملازمت کر چکا تھا، اسی ليے وہ اس سے واقف تھا کہ مترجم کا صحيح ہونا، اس کے کيس کے ليے کتنا اہم تھا۔
آٹھ ماہ بعد اسے ايک خط موصول ہوا، جس ميں اسے بتايا گيا کہ اس کی سياسی پناہ کی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔ الجھن اور پريشانی کے شکار آلا نے وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين کے آفيسر کے ساتھ ہونے والی تمام گفتگو کا ترجمہ کرايا اور پھر جا کر اسے معلوم ہوا کہ در اصل اس کا مترجم عربی زبان صحيح طريقے سے نہيں جانتا تھا، جس سبب اس نے کئی جوابات کا ترجمہ بالکل ہی غلط کيا۔ آلا کے ليے يہ تجربہ ايک زندگی بدل دينے والا تجربہ ثابت ہوا۔
’تربیت اور کام دو، ملک بدر نہ کرو‘
02:00
جرمنی ميں کام کرنے والی ايک غير سرکاری تنظيم ’پرو ازيل‘ وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين ميں يہ معاملہ اٹھا چکی ہے۔ اس تنظيم کے ساتھ منسلک ايک قانونی ماہر بيلنڈا بارٹلوچی کہتی ہيں کہ مترجموں کو فری لانسرز کے طور پر رکھا جاتا ہے اور انہيں اجرتيں بھی کم دی جاتی ہيں۔ ان کے بقول کچھ عرصے قبل تک تو ان کی قابليت پر بھی زيادہ دھيان نہيں ديا جاتا تھا، گو کہ اب يہ تبديل ہو چکا ہے۔
وفاقی جرمن دفتر برائے اميگريشن و مہاجرين يا (BAMF) کے ترجمان کے مطابق سن 2015 ميں بہت بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب ادارے کو بھی کئی انتظامی مسائل کا سامنا رہا۔ ترجمان نے مزيد بتايا، ’’پچھلے ايک سال کے عرصے ميں سياسی پناہ کے متلاشی 445,000 مہاجرين کے انٹرويو ليے گئے اور وہ بھی مختلف زبانوں ميں۔ اس کے ليے متعدد مترجم درکار تھے۔‘‘ ادارے کے مطابق پچھلے سال قريب 2,600 مترجم اس کے ساتھ منسلک تھے اور رواں سال ستمبر ميں يہ تعداد ساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ تھی۔
کن ممالک کے کتنے مہاجر بحیرہ روم کے ذریعے یورپ آئے؟
اس سال اکتیس اکتوبر تک ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسان کشتیوں میں سوار ہو کر بحیرہ روم کے راستوں کے ذریعے یورپ پہنچے، اور 3 ہزار افراد ہلاک یا لاپتہ بھی ہوئے۔ ان سمندری راستوں پر سفر کرنے والے پناہ گزینوں کا تعلق کن ممالک سے ہے؟
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
نائجیریا
یو این ایچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق اس برس اکتوبر کے آخر تک بحیرہ روم کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے ڈیڑھ لاکھ تارکین وطن میں سے بارہ فیصد (یعنی قریب سترہ ہزار) پناہ گزینوں کا تعلق افریقی ملک نائجیریا سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
شام
خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے مہاجرین کی تعداد پچھلے دو برسوں کے مقابلے میں اس سال کافی کم رہی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ساڑھے چودہ ہزار شامی باشندوں نے یورپ پہنچنے کے لیے سمندری راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
جمہوریہ گنی
اس برس اب تک وسطی اور مغربی بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کرنے والے گیارہ ہزار چھ سو پناہ گزینوں کا تعلق مغربی افریقی ملک جمہوریہ گنی سے تھا۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
آئیوری کوسٹ
براعظم افریقہ ہی کے ایک اور ملک آئیوری کوسٹ کے گیارہ ہزار سے زائد شہریوں نے بھی اس برس بحیرہ روم کے سمندری راستوں کے ذریعے پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش کے قریب نو ہزار شہری اس سال کے پہلے دس ماہ کے دوران خستہ حال کشتیوں کی مدد سے بحیرہ روم عبور کر کے یورپ پہنچے۔ مہاجرت پر نگاہ رکھنے والے ادارے بنگلہ دیشی شہریوں میں پائے جانے والے اس تازہ رجحان کو غیر متوقع قرار دے رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
مراکش
شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک مراکش کے ساحلوں سے ہزارہا انسانوں نے کشتیوں کی مدد سے یورپ کا رخ کیا، جن میں اس ملک کے اپنے پونے نو ہزار باشندے بھی شامل تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
عراق
مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ ملک عراق کے باشندے اس برس بھی پناہ کی تلاش میں یورپ کا رخ کرتے دکھائی دیے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے نو ماہ کے دوران چھ ہزار سے زائد عراقی شہریوں نے سمندری راستوں کے ذریعے یورپ کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/E. Menguarslan
اریٹریا اور سینیگال
ان دونوں افریقی ممالک کے ہزاروں شہری گزشتہ برس بڑی تعداد میں سمندر عبور کر کے مختلف یورپی ممالک پہنچے تھے۔ اس برس ان کی تعداد میں کچھ کمی دیکھی گئی تاہم اریٹریا اور سینیگال سے بالترتیب ستاون سو اور چھپن سو انسانوں نے اس برس یہ خطرناک راستے اختیار کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Diab
پاکستان
بحیرہ روم کے پر خطر سمندری راستوں کے ذریعے اٹلی، یونان اور اسپین پہنچنے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد اس برس کے پہلے نو ماہ کے دوران بتیس سو کے قریب رہی۔ گزشتہ دو برسوں کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستیں دی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Stavrakis
افغانستان
رواں برس کے دوران افغان شہریوں میں سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کے رجحان میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق اس برس اب تک 2770 افغان شہریوں نے یہ پر خطر بحری راستے اختیار کیے۔