پناہ کی قانونی کارروائی افريقہ ميں، يورپ جانے کی ضرورت نہيں
عاصم سلیم
29 اگست 2017
يورپی اور افريقی رہنماؤں نے فرانس ميں منعقدہ ايک سربراہی اجلاس ميں پناہ گزينوں کی افريقہ ميں اسکريننگ کے منصوبوں کی حمايت کی ہے تاکہ وہ پناہ کی تلاش ميں بحيرہ روم کا خطرناک راستہ اختيار نہ کريں۔
اشتہار
فرانسيسی صدر ایمانوئل ماکروں نے تجويز پيش کی ہے کہ افريقی ممالک نائجر اور چاڈ ميں ايسے محفوظ علاقے قائم کيے جائيں، جہاں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کا جائزہ ليا جائے۔ پناہ کی ان درخواستوں کے جائزے کا کام اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين (UNHCR) کے رضاکار کريں گے۔ ماکروں نے يہ تجويز گزشتہ روز فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں منعقدہ يورپی و افريقی رہنماؤں کی سمٹ کے موقع پر دی۔ سات ملکوں کی سمٹ کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلاميے ميں بتايا گيا ہے کہ اس سلسلے ميں نائجر اور چاڈ کی طرف ايک مشن روانہ کيا جائے گا۔ رہنماؤں نے لائحہ عمل پر مبنی ايک روڈ ميپ پر بھی دستخط کيے۔
سوڈان، اريٹريا، ايتھوپيا اور ديگر افريقی رياستوں ميں مسلح تنازعات اور ديگر مسائل سے فرار کی کوشش ميں 2014ء سن سے لے کر اب تک چودہ ہزار افراد بحيرہ روم ميں لقمہ اجل بن چکے ہيں۔ اسی دوران بلقان رياستوں کے راستے گزرنے والے روٹ کی بندش کے سبب ہزارہا تارکين وطن بحيرہ روم کے راستے اٹلی پہنچ رہے ہيں۔ يورپی رہنما اس سلسلے کو روکنا چاہتے ہيں۔
پير کو منعقدہ اجلاس ميں شامل ساتوں رکن ممالک نے ليبيا ميں سياسی عدم استحکام کو مہاجرين کی يورپ کی جانب غير قانونی ہجرت کے نہ رکنے کی ايک بنيادی وجہ قرار ديا۔ چاڈ کے صدر ادريس ديبی کے بقول جب تک ليبيا ميں استحکام پيدا نہيں ہوتا، مہاجرين کے بحران کا مسئلہ ختم نہيں ہو گا۔ ليبيا ميں سابق آمر معمر قذافی کی سن 2011 ميں ہلاکت کے بعد يہ ملک سياسی انتشار کا شکار ہے۔ وہاں دو حکومتيں اقتدار کی جنگ لڑ رہی ہيں جبکہ کئی مسلح مليشيا بھی سرگرم ہيں۔
اقوام متحدہ ميں مہاجرين سے متعلق امور کے سربراہ فيليپو گراندی نے پير کو ہونے والی پيش رفت کو سراہا تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ صرف مہاجرين کی آمد محدود کرنے کے اقدامات سے يہ مسئلہ ختم نہيں ہو گا۔ گراندی نے کہا، ’’کسی بھی با معنی حکمت عملی ميں ان ممالک ميں قيام امن کی کوششيں لازمی ہونی چاہئيں، جہاں مسلح تنازعات جاری ہيں۔‘‘
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔