1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ کے متلاشی افراد کے لیے یورپ میں تنگ ہوتی زمین

20 جون 2024

یورپی یونین میں سیاسی پناہ کے قوانین میں تیزی سے کی جانے والی سختیوں، غیر ملکیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تارکین وطن کے ساتھ معاندانہ سلوک کی وجہ سے اب پناہ کے متلاشی افراد برطانیہ کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔

UK Migration am Ärmelkanal
تصویر: Ben Stansall/AFP

 

 برطانوی حکومت بھی غیر قانوی تارکین وطن کے ملک میں داخلے کے خلاف پابندیوں میں سختی لانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

یورپ آنے والے بہت سے غیر قانونی تارکین وطن کے خاندان کے افراد یا دوست احباب برطانیہ میں آباد ہیں اس کی وجہ سے یہ تارکین وطن اس تصور کے ساتھ برطانیہ  کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہاں ان کے لیے پناہ کے زیادہ مواقع میسر ہوسکتے ہیں۔

 2015 ء اور 2016 ء کے درمیان یورپی یونین میں پناہ گزینوں کی ریکارڈ تعداد میں آمد ایک بحران کا سبب بنی تھی۔ اسی  تناظر میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے نہ صرف اپنی اپنی پالیسیوں میں واضح تبدیلی لائی بلکہ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے قوانین میں بہت زیادہ سختیاں بھی کیں۔ اس وجہ سے پناہ کی تلاش  میں یورپ کا رُخ کرنے والے افراد کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔

جرمنی، جرم کرنے والے افغان باشندوں کو ملک بدر کیوں نہیں کر رہا؟

01:27

This browser does not support the video element.

پناہ گزینوں کا بحران ایک سیاسی ہتھکنڈا

فرانس  سمیت یورپ بھر میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں پناہ گزینوں کے بحران کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور حالیہ مہینوں میں متعدد یورپی ممالک میں یہ موضوع ان سیاسی جماعتوں کی بڑی انتخابی کامیابیوں کا سبب بھی بنا ہے۔

دائیں بازو کے سیاست دانوں کی بیان بازی کے اثرات  فرانسیسی  ساحلوں کے ساتھ ساتھ دیگر یورپی مقامات کے زریعے پناہ کے لیے یورپ کا رخ کرنے والے افراد کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک سے ظاہر ہو رہے ہیں۔

انگلش چینل سے پناہ گزینوں کو بچا کر ساحل تک پہنچانے کی ریسکیو ورکرز کی کوششتصویر: Stuart Brock/REUTERS

 انسانی حقوق کے  کارکنوں کا کہنا ہے کہ یورپی بلاک میں شامل ممالک کی سرحدوں اور ساحلوں پر پناہ کے متلاشی افراد کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ یورپی یونین کے بنیادی اُصولوں، جیسے کہ جمہوریت، انسانی وقار،  احترام اور کشادہ دلی کے تصور سے متصادم ہے۔

حالیہ مہینوں کے دوران فرانسیسی بندرگاہی علاقوں ڈن کرک، کلے اور بولوں سُر مر  میں پولیس اور انسانی اسمگلروں کے مابین پر تشدد جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے ان انسانی اسمگلروں کے خلاف آنسو گیس، کالی مرچوں کے اسپرے اور ربڑ کی گولیوں تک کا استعمال کیا جبکہ ان اسمگلروں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔

فرانسیسی حکومت کے اقدامات

فرانس نے غیر قانونی تارکین وطن کے داخلوں کو روکنے کے لیے گزشتہ سال برطانیہ کے ساتھ لاکھوں یورو کے عوض ایک معاہد ے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ معاہدہ یورپی یونین اور شمالی افریقی ممالک کے مابین حالیہ سالوں میں طے پانے والے ایک معاہدے سے مماثلت رکھتا ہے۔

اٹلی: بے یارو مددگار تارکین وطن کے بال کاٹنے والا کشمیری نوجوان

03:03

This browser does not support the video element.

اس معاہدے کے مطابق بہت سے افراد کو فرانسیسی پولیس کی طرف سے روک دیا گیا تاہم انہیں کوئی متبادل حل پیش نہیں کیا جاتا اس لیے انہیں بار بار سرحد پار کرنے کی کوشش کرنا پڑتی ہے۔     

27 رکنی یورپی یونین کے پناہ سے متعلق قوانین میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ کوئی بھی شخص  صرف اسی ملک میں پناہ کی درخواست دینے کا اہل ہو گا، جہاں سے وہ یورپی یونین میں داخل ہوا تھا۔ اس شرط کی وجہ سے یورپی یونین کے دیگر خطوں کے ساتھ سرحدوں والے ممالک اٹلی، یونان اور اسپین  کو بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑا۔

لائف بوٹس تارکین وطن کے ایک گروپ کو انگلینڈ کے پورٹ ڈوور پہنچاتے ہوئےتصویر: Dan Kitwood/Getty Images

برطانیہ پہنچنے والے تارکین وطن

رواں برس کے ابتدائی پانچ مہینوں کے دوران تقریباﹰ دس ہزار پانچ سو افراد چھوٹی کشتیوں کے زریعے انگلینڈ پہنچے۔ برطانوی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے پہلے پانچ ماہ کے مقابلے میں تارکین وطن کی تعداد میں اس سال 37 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

مہاجرین سے بھری ڈوبنے والی کشتی میں سوار پاکستانی کی اہلیہ

01:47

This browser does not support the video element.

سرحدی نگرانی میں اضافے کی وجہ سے پناہ گزینوں کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں اور ساحل کے قریب مزید ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔                                                                                                                                                                                             

 فرانس  میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کی مدد کرنے والی غیر سرکاری امدادی تنظیم  یوٹوپیا 56 کے مطابق اس سال اب تک برطانیہ پہنچنے کی کوشش کر نے والے  کم از کم 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مہاجرت سے متعلق اقوام متحدہ کی زیلی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہلاکتوں کی یہ تعداد اتنی ہی ہے، جتنی گزشتہ پورے سال کے دوران ہوئی تھی۔

ک م/ ش ر( اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں