2015 ء میں شروع ہونے والے مہاجرین کے بحران سے اب تک جرمنی کی مختلف ریاستوں میں سوشل بینیفٹ حاصل کرنے والے پناہ کے متلاشیوں کی تعداد میں پہلی بار نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اشتہار
جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کی جانب سے بُدھ کو پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2015 ء میں مہاجرین کا بحران اور جرمنی کی طرف پناہ کے متلاشیوں کے سیلاب کے بعد سے ایسے مہاجرین کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ہے جو جرمنی کی کسی نا کسی ریاست سے سوشل بینیفٹس یا سماجی امداد حاصل کر رہے ہیں۔
بُدھ 21 دسمبر کو جرمنی کے وفاقی دفتر شماریات کی طرف سے 2021 ء کے اختتام تک جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے مختص ''بینیفٹس ایکٹ‘‘ سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافے کا انکشاف کیا گیا۔ ان اعداد وشمار کے مطابق دوہزار اکیس کے آخر تک پناہ کے متلاشی تین لاکھ ننانوے ہزار افراد نے جرمنی کے بینیفٹس ایکٹ کے تحت امداد حاصل کی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تعداد ایک سال قبل یعنی 2020 ء کے مقابلے جیں چار عشاریہ تین فیصد زائد ہے۔ با الفاظ دیگر پناہ کے متلاشی ایسے افراد جنہیں دوہزار دو میں سوشل بینیفٹس دیے گئے ان کی تعداد میں 2021 ء میں 17 ہزار کا اضافہ ہوا۔
سیاسی پناہ کے متلاشیافراد کے لیے جرمن حکومت کی طرف سے مختص کیا گیا ''بینیفٹس ایکٹ‘‘ دراصل ان لوگوں کو امداد کا مستحق قرار دیتا ہے جن کی پناہ کی درخواست منظور کر لی جاتی ہے۔
امداد کا استعمال
جرمنی کے ''بینیفٹس ایکٹ‘‘ سے فائدہ اُٹھانے والوں کو یہ امداد بنیادی طور پر خوراک کی ضروریات پورا کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ ساتھ ہی شیلٹر یا سر چھپانے کے لیے ٹھکانا، ہیٹننگ ) خاص طور سے سردیوں سے بچنے کے لیے( گرم لباس، گھریلو استعمال کی ضروری اشیاء اور روزمرہ زندگی کے تقاضے پورا کرنے کے لیے مالی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ تاہم جرمنی میں چند خاص قسم کی ضروریات پورا کرنے کے لیے بھی بینیفٹس الاؤنس دیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر حمل یا بیماری کی صورت میں ضروری اخراجات پورا کرنے کے لیے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنے والے ایک لاکھ پچھتر ہزار پچاس غیر ملکیوں کو جرمنی میں گزشتہ سال یعنی 2021 ء میں جرمن ریاست نے امداد فراہم کی۔ وفاقی دفتر شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ ایک لاکھ پچھتر ہزار سے زائد ایسے افراد میں 61 فیصد مرد تھے۔ مزید برآں یہ بینیفٹ حاصل کرنے والے کُل افراد میں سے ایک تہائی سے زیادہ نابالغ افراد کی تھی۔
جرمنی آنے والے پناہ کے متلاشی افراد سے متعلق تازہ ترین اندازوں سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ان میں زیادہ تر افغانستان، شام اور عراقی باشندے شامل تھے۔
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔