1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

پناہ کے متلاشی افراد: ٹیلی فونز کی تلاشی، تنازعہ عدالت میں

14 فروری 2023

جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کے ڈیٹا پرائیویسی حقوق کا موضوع ان دنوں قانونی سطح پر زیر بحث ہے۔ ایک اعلیٰ انتظامی عدالت ایک افغان پناہ گزین کے فون کی اسکیننگ کے قانونی یا غیر قانونی ہونے سے متعلق کیس کی سماعت کرے گی۔

Deutschland Nürnberg | BAMF
تصویر: Christoph Hardt/Geisler-Fotopress/picture alliance

جرمن شہر لائپزگ میں جمعرات 16 فروری کے روز ایک اعلیٰ انتظامی عدالت ایک ایسے کیس کی سماعت کرنے جا رہی ہے، جس کا تعلق جرمنی میں پناہ کے متلاشی غیر ملکیوں کے ڈیٹا پرائیویسی رائٹس یا ذاتی کوائف خفیہ رکھے جانے کے حقوق سے ہے۔

اس سلسلے میں 2019 ء میں ایک افغان پناہ گزین کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کی عدالتی سطح پر چھان بین کی جا رہی ہے۔ لائپزگ میں ملک کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت اس بارے میں ایک مقدمے کی سماعت کرے گی کہ آیا ملکی حکام نےپناہکی متلاشی اس افغان خاتون  کے آبائی ملک کا پتا چلانے کے لیے اس کے موبائل فون کا ڈیٹا اسکین کر کے مروجہ قانون کی خلاف ورزی کی۔

پناہ کے متلاشی افراد کو ڈیٹا پرائیویسی کے کون سے حقوق حاصل ہیں؟ یہ موضوع جرمنی میں کچھ عرصے سے زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جرمنی کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو پرسنل ڈیٹا کے تحفظ کے حوالے سے عالمی سطح پر مثالی سمجھے جاتے ہیں اور اس تناظر میں اسی ہفتے ممکنہ طور پر ایک تاریخی عدالتی فیصلہ سامنے آ سکتا ہے۔

جرمنی میں پناہ کے متلاشی افراد کے کوائف پر نہایت باریکی کے ساتھ نظر رکھی جاتی ہےتصویر: Armin Weigel/dpa/picture alliance

جرمنی کی سوسائٹی فار سول رائٹس (GFF) ایک غیر منفعتی تنظیم برائے شہری حقوق ہے اور اس سوسائٹی کی قانونی ٹیم کی خاتون رکن لئیا بیکمان نے ڈوئچے ویلے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، ''اگرچہ جمعرات کو عدالت ایک انفرادی کیس کا فیصلہ کرنے جا رہی ہے، تاہم ہماری مؤکلہ کے ساتھ جو ہوا، وہ جرمنی میں اب ایک عام رواج ہے۔‘‘ اس افغان خاتون کا نام اس کے وکلاء کی درخواست پر ممکنہ منفی نتائج کے خوف سے صیغہ راز میں رکھا جا رہا ہے۔

معاملہ قانونی حیثیت کیسے اختیار کر گیا؟

اس افغان خاتون نے 2020ء میں اپنے موبائل فون کے ڈیٹا کی تلاشی لیے جانے اور اس کے ذریعے چھان بین کیے جانے پر سوسائٹی فار سول رائٹس کے تعاون سے جرمنی کے وفاقی دفتر برائے ترک وطن اور مہاجرین (BAMF) 'بامف‘ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ اس سے اگلے سال یعنی 2021 ء میں برلن کی ایک علاقائی عدالت نے اس خاتون کے حق میں فیصلہ سنایا اور اس کے حق میں دلیل یہ دی کہ حکام نے اس خاتون پناہگزین کے پس منظر کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے ایسے دیگر ذرائع استعمال نہیں کیے تھے، جن سے اس افغان خاتون کا ذاتی کوائف کے تحفظ کا حق پامال نہ ہوتا۔ اس کے برعکس 'بامف‘ کے حکام نے اس سلسلے میں سیدھے ہی اس کے فون سے تمام کوائف حاصل کرنے کی کوشش کی، جو متعلقہ قوانین کی خلاف ورزی تھی۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کے امور کے وفاقی جرمن دفتر نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی اور وفاقی انتظامی عدالت میں ملک کے اعلیٰ ججوں سے اس فیصلے پر غور کرنے کی درخواست کی۔

موبائل فون کا ڈیٹا اکٹھا کرنا غیر قانونی سمجھا جا سکتا ہےتصویر: Justin Sullivan/Getty Images

اب لائپزگ کی عدالت چند ہی روز میں اس کیس کی سماعت کے اختتام کے ساتھ ہی  اپنے فیصلے کا اعلان کر سکتی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ عدالت یا توعلاقائی عدالت کے فیصلے کو پیچھے رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کا استعمال کرے گی یا پھر اس کیس کو منسوخ کر دے گی۔

اس ممکنہ فیصلے پر دیگر معاشروں میں بھی مائیگریشن حکام کی طرف سے گہری نظر رکھی جائے گی، خاص طور سے ان ممالک میں جہاں پناہ کی درخواستوں کی چھان بین اور کسی بھی ایسی درخواست پر فیصلہ کیے جانے سے قبل حکام ایسی ہی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔ عدالتی فیصلے سے قبل اسی ہفتے 'بامف‘ کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اپنی انتظامی اقدار اور طریقہ کار پر قائم ہے۔پناہ کی درخواست پر کارروائی ميں مترجم کا کردار انتہائی اہم

 

ک م / م م (یانوش ڈیلکر)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں