پناہ کے نظام پر مذاکرات تعطل کا شکار ، سالوینی غائب
6 جون 2018
یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے درمیان ہونے والے مزاکرات میں مہاجرت کے حوالے سے اصلاحات کا معاملہ ناکامی سے دوچار ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ روم میں نئی عوامیت پسند حکومت کے مطابق اٹلی مزید یورپ کا ’مہاجر کیمپ‘ نہیں بنے گا۔
اشتہار
یورپی بلاک کے وزرائے داخلہ کے درمیان امیگریشن کے نظام میں اصلاحات کے موضوع پر ہونے والے مذاکرات میں یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمتریس اوراموپولوس کو اندازہ ہو گیا ہے کہ رکن ریاستوں کو مہاجرین کے حوالے سے برابر کی ذمہ داری اٹھانے میں رضامند کرنے کے لیے ابھی مزید وقت درکار ہو گا۔
اورامو پولوس نے ایک نیوز کانفرنس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ آخری بار اصلاحات متعارف کرانے میں آٹھ سال کا عرصہ لگا تھا تاہم مجھے یقین ہے کہ اس مرتبہ معاملات جلدی طے ہو جائیں گے۔‘‘
یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد اٹلی اور یونان کے راستے اس براعظم میں داخل ہوتی ہے۔ سن 2015 میں یہ سلسلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا تھا۔ مہاجرین کے بحران نے نہ صرف یورپی اتحاد کو امتحان میں ڈالا ہے بلکہ متعدد ووٹرز کو مہاجرین مخالف جماعتوں کو ووٹ دینے کی جانب بھی مائل کیا ہے۔
روم حکومت کے سخت نظریات رکھنے والے نئے وزیر داخلہ ماتیو سالووینی اس ملاقات میں موجود ہونے کے بجائے ملکی سینیٹ میں نئے وزیراعظم کا خطاب سننے گئے تھے۔ سالووینی نے اسی ہفتے کہا تھا کہ اٹلی کو یورپ کے مہاجر کیمپ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اٹلی کی حکومت امیگریشن نظام کے لیے مجوزہ اصلاحات کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔
سیاسی پناہ کے قوانین میں اصلاحات کے ایک نئے مسودے پر گفتگو میں تعطل کے حوالے سے لکسمبرگ کے وزیر داخلہ ژاں ایسلبورن نے ازراہ مذاق کہا،’’ میرا اندازہ ہے کہ ہم اس معاملے پر ایسٹر تک متفق ہو جائیں گے لیکن کس سال کے ایسٹر تک، یہ میں نہیں جانتا۔‘‘
یورپ میں پناہ کے موجودہ قوانین کے تحت تارکین وطن صرف پہلی بار داخلے کے ملک میں ہی پناہ کی درخواست دائر کر دیتے ہیں۔ اس طرح اٹلی اور یونان وہ دو ممالک ہیں جو پناہ گزینوں کے حوالے سے سب سے زیادہ بوجھ برداشت کر رہے ہیں۔ یورپی یونین چاہتی ہے کہ ایسے مہاجرین جو جنگ زدہ ملکوں سے اپنی جان بچا کر آئے ہیں، انہیں بلاک کے تمام ممالک میں منصفانہ طور پر تقسیم کر دیا جائے۔
یونین کے رہنماؤں نے گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں یہ طے کیا تھا کہ آزائلم پالیسی میں اصلاحات کا معاملہ اس برس جون تک نمٹا دیا جائے گا جبکہ گزشتہ ہفتے جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ آئندہ تین سے چار ہفتوں میں اتفاق رائے طے پا جائے گا۔
ص ح/ روئٹرز
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔