مہاجرین کے بحران نے یورپی یونین کے اتحاد کو امتحان میں ڈال رکھا ہے، مہاجرین کی منصفانہ تقسیم اور پناہ کے یورپی قوانین میں اصلاحات کے لیے طے شدہ ڈیڈ لائن ختم ہونے کے قریب ہے۔ اب یونین نیا لائحہ عمل اختیار کر رہی ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہان نے گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میں ایک اجلاس کے دوران سیاسی پناہ سے متعلق مشترکہ یورپی قوانین میں اصلاحات کرنے کے لیے اس برس جون تک کا وقت طے کیا تھا۔ لیکن یونین کی اپنی طے کردہ مدت بھی ختم ہونے کے قریب ہے اور ابھی تک اس بارے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو پائی۔ اس صورت حال میں یونین نے نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یونین کے پناہ سے متعلق قوانین میں اصلاحات کا ایک بڑا مقصد اٹلی اور یونان پر پڑنے والا مہاجرین کا بھاری بوجھ کچھ کم کرنا بھی تھا۔ لیکن یورپی یونین میں مہاجرین کی منصفانہ اور لازمی تقسیم کا یورپی منصوبہ مشرقی یورپ کی کئی ریاستوں کی شدید مخالفت کے باعث ابھی تک ناکام رہا ہے۔
نو جون بروز جمعہ لکسمبرگ میں منعقدہ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ کے ایک اجلاس میں جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا، ’’میرے نزدیک مذاکرات کا موجودہ طریقہ کار نتیجہ خیز ثابت ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘
ڈے میزیئر کی تجویز پر اب یونین نے نیا لائحہ عمل اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جرمن وزیر داخلہ نے تجویز دی تھی کہ سب سے پہلے ان امور کو طے کر لیا جائے جن پر اختلاف رائے کم ہے جب کہ پیچیدہ معاملات کو بعد ازاں الگ سے طے کیا جائے۔
یورپی کمیشن کے سربراہ دیمیتریس افراموپولوس نے بھی اس لائحہ عمل سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یونین میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا معاملہ اور پناہ کے ملکی قوانین اور انفرادی ممالک کی ذمہ داریوں کے بارے میں معاملات الگ سے طے کیے جانے چاہییں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ معاملات بھی الگ سے لیکن اسی سال کے آخر تک حل کر لیے جائیں گے۔
اس ششماہی کے لیے یونین کی صدارت مالٹا کے پاس ہے۔ مالٹا نے ان معاملات کو طے کرنے کے لیے تمام امکانات سامنے رکھے، لیکن واضح نہیں ہے کہ اس کے باوجود کوئی اتفاق رائے کیوں نہیں ہو سکا۔
اٹلی اور یونان میں مقیم مہاجرین کی یونین کے دیگر رکن ممالک منتقلی کے منصوبے کی چیک جمہوریہ اور پولینڈ جیسے ممالک شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت ایک لاکھ ساٹھ ہزار مہاجرین کی منتقلی کی جانا تھی۔ یورپی کمیشن اگلے ماہ اس بابت فیصلہ کرے گی کہ ایسے ممالک کے خلاف کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
تھوماس ڈے میزیئر کے مطابق تاہم اس معاملے کے علاوہ دیگر اہم امور پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’سکیورٹی حکام کو فوری طور پر یونین کے تمام ممالک میں مقیم مہاجرین کے انگلیوں کے نشانات کے ڈیٹابیس تک رسائی فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔‘‘ علاوہ ازیں تمام رکن ممالک میں سیاسی پناہ دینے کے قوانین میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ ان معاملات پر اتفاق رائے بھی کافی حد تک پایا جاتا ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘