1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پناہ گزینوں کے بحران میں ’فیصلہ کن موڑ‘ آ گیا ہے، یُنکر

شمشیر حیدر7 مئی 2016

یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود یُنکر کا کہنا ہے کہ یونین اور ترکی کے معاہدے کی بدولت مہاجرین کا بحران اپنے ’فیصلہ کن موڑ‘ تک آن پہنچا ہے اور معاہدے کے ابتدائی ثمرات مہاجرین کی آمد میں کمی کی صورت میں ملنے لگے ہیں۔

Türkei Griechenland Abschiebung von Flüchtlingen
تصویر: picture alliance/abaca/AA

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یُنکر نے یہ بات جرمنی کے ’فُنکے میڈیا گروپ‘ کو دیے گئے اور ہفتہ سات مئی کو شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہی۔

جرمنی اور اٹلی نئی امیگریشن پالیسی پر متفق

یورپی کمیشن نے سیاسی پناہ کے نئے قوانین تجویز کر دیے

رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق ترکی غیر قانونی تارکین وطن کو یورپ کا رخ کرنے سے روکنے میں تعاون کر رہا ہے۔ اس کے بدلے ترک شہریوں کے لیے یورپ میں بغیر ویزا سفر کی سہولت اور مالی معاونت مہیا کی جا رہی ہے۔

یُنکر کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد مہاجرین کی یورپ آمد کو منظم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ ترکی کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مثبت نتائج حاصل ہو رہے ہیں اور نئے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔‘‘

یورپی کمیشن کے صدر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سب ٹھیک ہے‘ اُسی وقت کہا جا سکتا ہے جب پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی دیرپا ہو جائے گی تاہم ان کے مطابق فوری طور پر اٹھائیس ممالک پر مشتمل یورپی یونین کو اتنا وقت ضرور مل گیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی پناہ دینے کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنا سکے۔

یورپ میں بہتر زندگی کا ادھورا خواب، ملک بدر ہوتے ‫پاکستانی‬

02:33

This browser does not support the video element.

گزشتہ برس گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن غیر قانونی طور پر ترکی کے ساحلوں سے یونانی جزیروں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے جس کے بعد زیادہ تر مہاجرین بلقان کی ریاستوں سے گزرتے ہوئے جرمنی اور دیگر مغربی و شمالی یورپی ممالک کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔

ترک یورپی معاہدہ طے پانے کے بعد سے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں تو نمایاں کمی ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اب لیبیا کے ساحلوں سے اٹلی کی جانب سفر کرنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

یُنکر نے مقدونیہ کی جانب سے یونان سے متصل اپنی قومی سرحد کو باڑ لگا بند کرنے کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا، ’’میں اس رائے سے متفق نہیں ہوں کہ خار دار تاریں لگا کر سرحدیں بند کرنے سے مہاجرین کا بحران حل ہو سکتا ہے۔ سرحدوں کو باڑیں لگا کر اور اونچی دیواریں کھڑی کر کے بند کرنے سے مہاجرین کی نقل و حرکت محدود تو جا سکتی ہے لیکن جنگوں اور تشدد سے بھاگ کر آنے والوں کو یورپ میں داخل ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔‘‘

’تارکین وطن کو اٹلی سے بھی ملک بدر کر دیا جائے‘

جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں