پناہ گزینوں کے ہاسٹلوں پر حملے، سزائیں کم دی گئیں
6 اپریل 2020اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں سن 2015 سے لے کر سن 2018 کے دوران پناہ گزینوں کے رہائشی مقامات پر ڈھائی ہزار سے زائد حملے کیے گئے تھے۔ ایسے حملہ کرنے والوں میں سے صرف آٹھ فیصد ہی کو مختلف عدالتوں سے سزا مل سکی ہے۔ پناہ گزینوں پر حملے کرنے والوں کا تعلق نسل پسندانہ دائیں بازو گروپوں سے خیال کیا جاتا تھا۔
اس مناسبت سے ایسا خیال بھی کیا گیا کہ ان حملوں کی مناسب تفتیش نہیں کی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کے انتظامی اہلکار ملزمان کے خلاف مناسب انداز میں تفتیشی عمل جاری رکھنے سے بھی قاصر رہے۔ نامناسب تفتیش اور تاخیری انداز اپنانے کی وجہ سے ٹھوس ثبوت بھی جمع نہیں کیے جا سکے۔ اس باعث عینی شہادتیں بھی ضائع ہوگئیں۔ کمزور شواہد اور ہلکے ثبوتوں کی وجہ سے عدالتیں حملہ آوروں کو قانون کے مطابق سزائیں سنانے سے قاصر رہیں۔
نسلی تعصب کے حامل حملہ آوروں کے خلاف کم سزائیں سنانے پر جرمن پبلک براڈکاسٹنگ ادارے 'ایس ڈبلیو آر‘ اور 'بی آر‘ نے ایک تحقیقی رپورٹ مکمل کی ہے۔ ان اداروں نے تمام سولہ جرمن ریاستوں سے ایسے حملوں کے بعد کے عدالتی عمل کے اعداد و شمار جمع کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان اداروں نے مطلوبہ اعداد و شمار پر ایک دستاویزی رپورٹ بعنوان 'دا ویک اسٹیٹ‘ مرتب کی۔ یہ رپورٹ حال ہی میں جرمن ٹیلی وژن چینل پر نشر کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: جرمنی میں پناہ گزینوں کی آباد کاری کورونا کے سبب روک دی گئی
سن 2015 سے لے کر سن 2018 کے دوران پناہ گزینوں کے رہائشی مقامات یا ہوسٹلوں پر کل 2558 چھوٹے بڑے حملوں کا ارتکاب کیا گیا۔ ان میں بعض انتہائی شدید حملے بھی تھے۔ چند ایک میں دیواروں پر تعصبانہ کلمات لکھنا بھی شامل تھا۔ جرمن وزارت داخلہ نے چھ سو واقعات کو کھلے عام رپورٹ کیا۔ ان چھ سو حملوں میں گرفتاریاں بھی کی گئی تھیں۔
مذکورہ دستاویزی رپورٹ کے مطابق ڈھائی ہزار سے زائد کیے گئے حملوں میں زیادہ تر میں تفتیشی عمل نامکمل رہا اور ملزمان انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جا سکے اور یہ حملہ آور اپنی متعصبانہ کارروائیوں کی تکمیل کے باوجود پوری طرح آزاد پھر رہے ہیں۔ صرف اٹھارہ فیصد واقعات کی مکمل تفتیش کی گئی۔ ایسے واقعات کی تعداد 467 بنتی ہے۔ ان چار سو سڑسٹھ واقعات میں صرف آٹھ فیصد کو یعنی 206 میں عدالت نے سزائیں سنائیں۔ ان سزاؤں میں بعض کو جیل بھیجا گیا اور کچھ کو جرمانے ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: جرمنی میں فٹ بال ریفری بننے والے مہاجرین
یہ رپورٹ مرتب کرنے والوں کے مطابق وفاق نے سخت قوانین متعارف کرائے ہیں لیکن اُن پر کس حد تک عمل کیا گیا، یہ ایک دوسرا پہلو ہے۔ اس رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی کارروائیوں کو کسی حد تک پولیس، تفتیشی عملے اور عدالتی ججوں کی جانب سے نظر انداز بھی کیا گیا۔
ع ح / ع آ (epd)