1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ارکان اسمبلی کی بولیاں لگانے والوں کا احتساب ممکن ہے؟

21 جولائی 2022

پاکستان کے صوبے پنجاب میں وزیر اعلٰی کے انتخاب سے پہلےحکومت اور اپوزیشن نےایک دوسرے پرارکان اسمبلی کی سودے بازی کےالزامات لگائے ہیں۔ عوامی حلقوں کا سوال یہ ہے کہ پیسے کے بدلے وفاداریاں بدلوانے والوں سے بازپرس کون کرے گا۔

Pakistan Hamza Shahbaz
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/PPI

پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے الگ الگ پریس کانفرنسوں میں الزام لگایا ہے کہ ان کے ارکان پنجاب اسمبلی کو وفاداریاں بدلنے کے عوض کروڑوں روپوں کی پیشکشیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ ارکان پنجاب اسمبلی کو وزیراعلی پنجاب کے الیکشن میں ووٹ کاسٹ نہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر بیرون ملک بھجوا دیا گیا ہے۔

پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کے لیے کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سیاسی وابستگیاں تبدیل کروانے کے لیے پیسوں کا استعمال بہت افسوسناک امر ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسی زیادہ تر خبروں میں صداقت نہیں ہوتی سیاسی جماعتیں پوائینٹ اسکورنگ کے لیے ایسے الزامات لگاتی رہتی ہیں۔ ان الزامات کو عدالت میں ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا۔

ایک سوال کے جواب میں احمد بلال محبوب نے بتایا کہ کل جمعے کے روز پنجاب اسمبلی میں ہونے والے وزیراعلی پنجاب کے الیکشن کا پاکستان الیکشن کمیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اس کا ذمہ دار ادارہ پنجاب اسمبلی سیکریٹیرئٹ ہے۔ اگر ارکان اسمبلی کی وفاداریاں بدلوانے کے لیے کوئی غیر قانونی عمل ہو رہا ہے تو ایسی بے ضابطگیوں کا نوٹس بھی پنجاب اسمبلی سیکریٹیرئٹ کو ہی لینا چاہیے۔ 

اتحادی جماعتوں کو حزب اختلاف کی پرکشش پیشکش

احمد بلال محبوب کو خدشہ ہے کہ وزیر اعلٰی پنجاب کے انتخاب کے لیے کل کو ہونے والا پنجاب اسمبلی کا اجلاس  بھی ہلڑ بازی، بےضابطگی اور امن و امان کی خرابی والے مناظر لیے ہوئے ہوگا۔ ان کے مطابق پچھلی مرتبہ پی ٹی آئی کی پوزیشن کمزور تھی اور اس نے قانون ہاتھ میں لے لیا تھا اس مرتبہ پاکستان مسلم لیگ نون کی پوزیشن کمزور ہے اس طرح ان کی باری ہے۔ '' ہم نے اپنی زندگی میں کبھی وہ مناظر نہیں دیکھے جو پچھلی مرتبہ پنجاب اسمبلی میں دیکھے تھے۔ اسمبلی میں منصوبہ بندی کے تحت باہر سے غیر متعلق لوگوں کو لایا گیا، بیشمار لوٹے لا کر اسمبلی میں بھر دیے گئے اور جب ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیا جا رہا تھا تو پاس کھڑے اسملی اہلکار بھی انہیں بچانے نہیں آئے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''میرے نزدیک امید کی کرن صرف یہ ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما ہوش کے ناخن لیں اور مل بیٹھ کر جمہوری طریقے سے جمہوری عمل کو آگے بڑھائیں وگرنہ پاکستان کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ اگر حالات اتنے خراب ہو جائیں کہ جس سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو جائیں  تو پھر جمہوری بساط لپیٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر حالات نہ سدھرے تو پھر ملک میں مارشل لا بھی آ سکتا ہے۔‘‘

سینیٹ کے الیکشن میں نواز شریف کی پارٹی کی واضح کامیابی

پیسے لے کر وفاداری بدلنے والے ارکان پارلیمان کے خلاف کیا کیا جائے؟ تصویر: AP

ایک قومی ٹی وی چینل سے وابستہ سینیئر صحافی جاوید فاروقی نے بتایا کہ ذمہ دار حلقوں میں ملک کا معاشی بحران سیاسی بحران سے زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب ایک نئے سیٹ اپ کی بات تواتر سے سننے میں آ رہی ہے۔ جاوید فاروقی کے بقول پنجاب اسمبلی میں ارکان کی حتمی تعداد کے حوالے سے (ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کیے جانے کی خبروں کے باعث) شدید کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ البتہ پہلے سے موجود اعدادوشمار کے مطابق پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ نون کے پاس ایک سو اسی ارکان ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس ایک سو اٹھاسی ارکان ہیں۔ وہ کہتے ہیں،''چونکہ ڈپٹی اسپیکر اجلاس کی صدارت کے باعث اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کر سکیں گے اس لیے پی ٹی آئی کے ارکان کی تعداد کو ایک سو ستاسی ہی سمجھنا چاہیے۔ لیکن ابھی یہ معلوم نہیں کہ ان پارٹیوں کے کتنے ارکان اسمبلی  بلڈنگ تک پہنچ پائیں گے اور کتنے راہ میں اچک لیے جائیں گے۔‘‘

پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ خطیر رقوم کے عوض وفاداریاں بدلنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف ریفرنس پنجاب اسمبلی کا سیکریٹیریئٹ  پاکستان الیکشن کمیشن کو بھجوا سکتا ہے۔ پھر ان کے خلاف احتسابی کارروائی آگے بڑھ سکتی ہے۔ ''دراصل یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ہے، جو لوگ باہر کے ملکوں میں جا کر کسی اور کے اکاؤنٹ میں رقوم وصول کرتے ہیں ان کو عدالت میں لاکر ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘

پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی کون ہو گا؟

کنوردلشاد کے بقول  آج کل عوامی سطح پر وفاداریاں بدلنے والے ارکان کے خلاف جو رد عمل دیکھنے میں آ رہا ہے اس سے بھی ایسے غیر جمہوری کاموں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ ان کے خیال میں میڈیا اور سول سوسائٹی کو بھی اس سلسلے میں عوامی آگاہی بڑھانے میں اپنا رول ادا کرنا چاہیے۔

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد  نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عوام کسی جماعت کے منشور اور نظریے کو دیکھ کر اس کے امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں۔ پیسے لے کر وفاداری بدلنے والا رکن اسمبلی ایک طرف غیر اخلاقی عمل کا مرتکب ہوتا ہے اور دوسری طرف  وہ عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتا ہے۔ ان کے نزدیک اس طرح سے وفاداری بدلنے والا رکن اسمبلی عوامی نمائندگی کا حق کھو بیٹھتا ہے۔ ڈاکٹر ارم خالد کے بقول،''ایسے شخص کی سیاسی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے اس کا ثبوت پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج بھی ہیں جہاں وفاداریاں بدلنے والوں کو ووٹروں کے ردعمل کا نشانہ بننا پڑا ہے۔ ‘‘

اس سوال کے جواب میں کہ ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت کو کیسے روکا جا سکتا ہے ڈاکٹر ارم خالد کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں عوام، میڈیا، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سمیت سب کو مل جل کر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر ارم خالد سمجھتی ہیں کہ پیسے لے کر وفاداری بدلنے والے شخص کو اس کی نشست سے محروم کردینا ہی کافی سزا نہیں ہے اس کو اور زیادہ سخت سزا دینے کے لیے نئی قانون سازی کی جانی چاہیے۔

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں