1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب اسمبلی: حکومت اور اپوزیشن کے الگ الگ اجلاس

16 جون 2022

مبصرین کے مطابق عوام کومعاشی ریلیف مہیا کرنے کی بجائےعوامی نمائندوں کی سیاسی لڑائیاں جمہوریت کے لیے اچھی علامت نہیں ہیں۔ حزب اختلاف اپنےارکان کے خلاف مقدمے واپس لینے کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

Pakistan | Minister Awais Leghari präsentiert den Haushalt 2022-23
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دو الگ الگ بجٹ سیشن منعقد کیے گئے۔ ایک اجلاس میں اپوزیشن غائب اور دوسرے میں حکومت موجود نہیں تھی۔

پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان کی طرف سے بلایا گیا اجلاس ایوان اقبال کی عمارت جبکہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی طرف سے بلایا گیا اجلاس اسمبلی کی عمارت میں منعقد ہوا۔ 

جمہوری تاریخ کا افسوسناک واقعہ

سیاسی مبصرین کے مطابق پنجاب کی جمہوری تاریخ کے اس افسوسناک واقعے میں منتخب عوامی نمائندے ایک دوسرے سے ایک کلومیٹر سے بھی کم کی دوری پر ہونے کے باوجود ایک چھت تلے بیٹھ کرعوامی مفاد میں بجٹ سیشن منعقد نہ کر سکے۔

پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس شروع تو اسمبلی کی عمارت میں ہی ہوا تھا لیکناپوزیشن کی طرف سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف مقدمات کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا، جسے بقول حکومتی وزرا کے مان لیا گیا تھا۔ اس پر اپوزیشن نے پنجاب کے چیف سیکریٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو پنجاب اسمبلی میں حاضر کرکے ان سے معافی منگوانے کا مطالبہ  بھی کیا اور پھر اس معاملے پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔

دونوں اجلاسوں میں مشترک بات یہ تھی کہ ان ایوانوں میں عوام کے منتخب نمائندوں کے لئے رکھی گئی کافی ساری کرسیاں خالی ہیں۔

پنجاب اسمبلی کا ڈیڈ لاک کیسے ختم ہوگا؟

 مقامی صحافی جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ یہ بدمزگی تقریباﹰ ایک مہینے تک جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ اس وقت کسی جماعت کے پاس بھی اسمبلی میں مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ سترہ جولائی کو وفاداریاں بدل کر نا اہل ہونے والے ارکان پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں کس فریق کو اکثریت ملتی ہے۔ اس کے بعد عدم اعتماد ہو گا پھر سکون سے ایوان کی کارروائی آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔

پاکستان ميں ملازمت پيشہ طبقہ مہنگائی سے سب سے زيادہ پريشان

02:50

This browser does not support the video element.

پنجاب اسمبلی کی تقسیم کے اثرات

پاکستان میں پارلیمان اور جمہوری اداروں کی مظبوطی کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’پلڈاٹ‘ کے سربرا احمد بلال محبوب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بنیادی طور پر یہ ذاتی انا کا معاملہ ہے اوپر سے سیاسی انتشار نے اس بحران کو مزید سنگین کر دیا ہے۔

صحافی جاوید فاروقی کا کہنا ہے کہ اسمبلی کے اجلاس پر عوامی ٹیکسوں کی خطیر رقوم خرچ  ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود ارکان اکٹھے بیٹھ کر اقتصادی مشکلات میں پھنسے عوام کو ریلیف دینے کی خاطر بجٹ پر سنجیدہ گفتگو کرنے کی بجائے الزامات اور جوابی الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔ احمد بلال محبوب اس سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ جب اپوزیشن اور حکومتی ارکان بجٹ سیشن میں اکٹھے ہوتے ہیں تو کیا وہ بجٹ کی کتابیں پڑھتے ہیں؟ کیا اپوزیشن کی تجاویز کو قبول کیا جاتا ہے؟ احمد بلال کے بقول،  ’’حکومت بجٹ بناتی ہے اور پھر اسے اسمبلی سے اسے پاس کروا لیتی ہے۔ عوام بھی تو ان ارکان اسمبلی کو اچھا بجٹ منظور کرنے کے لئے منتخب نہیں کرتے۔ عوام ووٹ دینے کے لئے اپنے ذاتی مفادات برادری اور دیگر امور کو پیش نظر رکھتے ہیں۔‘‘

تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

سیاسی امور کے ایک ماہر ڈاکٹر حسن عسکری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس صورتحال میں عوام جمہوری عمل سے لا تعلق ہوتے جا رہے ہیں اور یہ لاتعلقی ملک کے جمہوری مستقبل کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

عدالتوں کا کردار اہم

سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سیاسی منظر نامےپر اب کوئی بھی ایسی بڑی شخصیت موجود نہیں، جو محاذ آرائی پر اترے ہوئے ان سیاسی فریقوں کے درمیان مصالحت کروا سکے۔ ان کے بقول اب اسٹیبلشمنٹ بھی  ایسا نہیں کروا سکتی اس لئے اب عدالتوں کا کردار اہم ہو گیا یہے اور یہ معاملات عدالتوں میں جائیں گے اور وہی اس آئینی بحران کے خاتمے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکیں گی۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی محاز آرائی کی صورتحال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ، ادارے اور ووٹرز اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور اپنی پارٹی اور ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملکی مفاد کو ترجیح دیں۔ اگر ایسا نہ ہوا توحسن عسکری کے بقول پھر ادارے  بے معنی ہوتے چلے جائیں گے اور نئی صورتحال میں نقصان سیاست دانوں کا ہوگا۔

پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے سے پاکستانی عوام پریشان

01:33

This browser does not support the video element.

تنویر شہزاد،لاہور

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں