1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب کے ضمنی انتخابات کون جیتے گا؟

9 جولائی 2022

پاکستان میں سیاسی حلقوں کی توجہ اس وقت پنجاب کی طرف توجہ مرکوز ہے، جہاں 17 جولائی کو اسمبلی کے بیس حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین کانٹے کے مقابلے کا امکان ہے۔

Pakistan | Imran Khan Demonstration in Lahore

یہ انتخابات پاکستان تحریک انصاف کے ان منحرف ارکان پنجاب اسمبلی کی نشستوں کے خالی ہونے کے بعد ہو رہے ہیں، جنہیں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ان انتخابات کا نتیجہ نہ صرف ہمیں یہ بتائے گا کہ پنجاب میں اس وقت ہوائیں کس طرف کو چل رہی ہیں بلکہ اس سے مستقبل کی سیاست کے رجحان کا اندازہ بھی لگایا جا سکے گا۔

 

پنجاب کے ضمنی انتخابات اہم کیوں ہیں؟

پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار اور روزنامہ آواز کے ایڈیٹر خالد فاروقی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر ان انتخابات میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملتی ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف پنجاب میں وزیر اعلی حمزہ شہباز کی قیادت میں قائم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حکومت ختم ہو جائے گی بلکہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہونے کے بعد اس کے اثرات سے مرکزی حکومت کو بچانا بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔ ان کے بقول، ''دوسری طرف اگر یہ انتخابات مسلم لیگ نون جیت لیتی ہے تو پھر حمزہ شہباز کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور ملک ممکنہ طور پر استحکام کی طرف جا سکے گا اور پی ٹی آئی کا بیانیہ دم توڑ جائے گا۔‘‘

’’اگر یہ انتخابات مسلم لیگ نون جیت لیتی ہے تو پھر حمزہ شہباز کی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی‘‘تصویر: ZUMAPRESS.com/picture alliance

کیا بحران باقی رہے گا؟

ایک سوال کے جواب میں خالد فاروقی نے بتایا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کے  یہ الیکشن جیت جانے کی صورت میں اسے کیسے ہینڈل کیا جائے گا اور اگر ہارنے کی صورت میں پاکستان تحریک انصاف نے اپنی شکست کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی احتجاجی مہم میں تیزی لانے کی کوشش کی تو پھر حالات کیا رخ اختیار کریں گے اس کا جواب ابھی بہت سے لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''تاہم  ایک بات حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ایسی صورت حال میں صوبے میں جاری بحران ختم نہیں ہو سکے گا۔ یاد رہے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پچھلے کئی ہفتوں سے بحران کا شکار ہے اور چند دن پہلے پنجاب میں بجٹ کے موقع پر بھی پنجاب اسمبلی کے دو متوازی اجلاس ہوئے تھے۔‘‘

 

یہ الیکشن کون جیتے گا؟

پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے بلند بانگ دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ رائے عامہ کے ابتدائی جائزے بھی ان انتخابات کے نتائج کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی رائے دینے سے گریز کر رہے ہیں۔ پاکستان کے منقسم میڈیا میں متفرق آراء سامنے آ رہی ہیں ۔خالد فاروقی کہتے ہیں کہ ابھی الیکشن میں کوئی ایک ہفتہ باقی ہے اس دوران بہت سے ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں جو عام ووٹرز کی رائے کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان کے بقول پی ٹی آئی بڑھتی ہوئی مہنگائی کے موضوع کو اپنی انتخابی مہم میں پوری طاقت سے اٹھا کر پریشان ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسوں میں عوام کی بھرپور شرکت پی ٹی آئی کی مقبولیت کو ظاہر کر رہی ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا پاکستان تحریک انصاف اپنی اس مقبولیت کو  اپنے ووٹوں میں بدل سکے گی یا نہیں۔ان کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کو پچھلے عام انتخاب کی طرح اس بار سیڑھیاں اور بیساکھیاں بھی میسر نہیں ہیں اور وہ ملک کی دیگر موثر جماعتوں کا ساتھ حاصل کرنے میں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

خالد فاروقی کے بقول مسلم لیگ نون پچھلے بیس تیس سالوں سے پنجاب کی سیاست کو کنٹرول کر رہی ہے۔ ریاستی مشینری بھی اس کی دسترس میں ہے، پولیس، پٹواری اور تحصیلدار کی اہمیت کا بھی اسے اندازہ ہے۔ یہ جماعت الیکشن کی سائنس کو بھی بہتر سمجھتی ہے اور پھر پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سمیت اس الیکشن کے کئی ''سٹیک ہولڈر‘‘ بھی مبینہ طور پر ملک میں استحکام چاہتے ہیں۔ اگر الیکشن کے قریب جا کرعوامی ہمدردی کی کوئی موثر لہر پی ٹی آئی کی حمایت میں نہ آ سکی تو پھر پاکستان مسلم لیگ کا پلڑا بھاری رہنے کا امکان ہے۔

تحریک انصاف کے بعض رہنما الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا الزام لگا رہے ہیںتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

کیا روز افزوں مہنگائی نون لیگ کو لے ڈوبے گی؟

خالد فاروقی بتاتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ مہنگائی میں ہونے والا شدید اضافہ انتخابات میں ووٹرز کی رائے پر ضرور اثرانداز ہو گا لیکن اس کے منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے مسلم لیگ نون نے انتخابی حلقوں میں سستے آٹے کے ٹرک کھڑے کر دیے ہیں، چینی اور گھی کی قیمتوں میں کمی کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چھوٹے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اس کے علاوہ پراپیگنڈہ مہم کے ذریعے مہنگائی کی ذمہ داری پچھلی حکومت پر ڈالنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ اس سب کے باوجود بڑھتی ہوئی مہنگائی ووٹروں کی رائے پر اثر انداز ہو رہی ہے اور اس صورتحال نے لیگی رہنماؤں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

 

اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے؟

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنما الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا الزام لگا رہے ہیں، پی ٹی آئی کے بعض رہنما کسی گمنام فون نمبر سے آنے والی ٹیلی فون کالوں کو دباؤ ڈالنے کا حربہ بتا رہے ہیں۔ لیکن غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے سے ہی معلوم ہو سکے گا کہ اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے۔ ان کے بقول پی ٹی آئی کے جیتنے کا مطلب یہی ہو گا کہ مقتدر طاقتوں نے موجودہ حکومت کو بوریا بستر لپیٹنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ یاد رہے پچھلے دنوں اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مابین بیک چینل بات چیت کی باتیں بھی سامنے آئی تھیں لیکن ان اطلاعات کی باقاعدہ تصدیق کسی طرف سے بھی نہیں ہو سکی تھی۔ اپنے انتخابی جلسوں میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑائی نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں ان کے بقول ایسا کرنا پاکستان کے دشمنوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہو گا۔

 

کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پنجاب کی حکومت اگلے چند دنوں میں عوامی ریلیف کے اعلانات کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی نہ کسی سیاسی رہنما کا کوئی اسکینڈل بھی سامنے آ سکتا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی تو پھر بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت میں ہونے والے انتخابات کے دوران امن و امان کی صورتحال بری طرح خراب بھی ہو سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں