1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں امراض قلب کے مریضوں کی پر اسرار اموات

24 جنوری 2012

پاکستانی پنجاب میں امراض قلب کے مریضوں کی پر اسرار ہلاکتوں کے معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اب تک ساٹھ سے زائد افراد کی موت ہوچکی ہے۔

تصویر: Tanvir Shahzad

جاں بحق ہونے والے بیشتر مریضوں نے صوبے میں امراض قلب کی سب سے بڑی علاج گاہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے مفت ملنے والی ادویات استعمال کی تھیں۔ پنجاب کے محکمہ صحت کے سیکریٹری جہانزیب خان کے مطابق خدشہ یہ ہے کہ ان پانچ ادویات میں سے کسی ایک کے رد عمل کی وجہ سے مریضوں کو اس بیماری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں ڈینگی بخار، ڈاکٹروں کی ہڑتال اور اس پراسرار بیماری کی وجہ سے اب تک سینکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں لیکن ملک کے اس سب سے بڑے صوبے میں صحت کا کوئی وزیر نہیں ہے۔ اس وزارت کا قلمدان وزیر اعلی شہباز شریف نے درجن بھر دیگر محکموں کی طرح اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔

اس وقت لاہور کے مختلف ہسپتالوں میں دو سو سے زائد ایسے مریض زیر علاج ہیں، جن کو اس بیماری کا سامنا ہے۔ تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ ڈاکٹروں کے بقول اس بیماری کا شکار ہونے والے مریضوں میں شفایاب ہونے کی شرح انتہائی کم ہے۔ مزید نقصان سے بچنے کے لیے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی سے مشتبہ ادویات کا اجرا روک دیا گیا ہے اور ادویات حاصل کرچکنے والے مریضوں سے ادویات واپس لی جا رہی ہیں۔

صوبے میں اس سے قبل ڈینگی وائرس کے سبب بھی بہت سے شہری متاثر ہوئے تھےتصویر: DW

حکومت پنجاب جاں بحق ہوجانے والے افراد کی تعداد تیش سے کم بتارہی ہے جبکہ آذاد ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ساٹھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ سروسز ہسپتال کے سربراہ فیصل مسعود نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں صحت کے ماہرین سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ سرکار بھی ابھی تک اس بات کا سرا غ نہیں لگا سکی کہ یہ بیماری کس وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ ادھر مشتبہ ادویات کے نمونوں کے تجزیاتی نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان ادویات میں بیماری کا علاج کرنے والے اجزاکی مقدار اور اس کا میعار درست پایا گیا ہے۔اب ان ادویات کے نمونے مزید تحقیقات کے لیے یورپی تجربہ گاہوں میں بھیجے جا رہے ہیں۔

ایک مریض کے رشتےدار عبد الکریم نے بتایا، ’’مرنے والے غریب لوگ تھے، غریب کے مرنے کا اس ملک میں کس کو افسوس ہو گا، اب تو ہمیں حکومت سے توقع بھی باقی نہیں رہی ہے۔‘‘ ایک خاتون مریضہ بلقیس بیگم کا کہنا تھا بے گناہ لوگوں کا یوں مر جانا افسوسناک ہے حکومت کو صحت کے امور پر توجہ دینی چاہیے۔

مشتبہ قرار دی جانے والی ایک کمپنی میگا فارما کے چیف ایگزیکٹیو طاہر عالم نے بتایا کہ عام طور پر کسی بھی سرکاری ہسپتال کو ادویات کی فراہمی ان ادویات کی سرکاری ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری سے منظوری کے بعد ہی ممکن ہوتی ہے۔ اور ان کے پاس بھی ادویات کے درست ہونے کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے۔ ان کے بقول ناقص سٹوریج، غلط تشخیص اور کسی سازش سمیت اس بیماری کا باعث بننے والی دیگر ممکنہ وجوہات کا منصفانہ جائزہ لینے کی بجائے حکومت عوامی دباؤ کو کم کرنے کے لیےسارا ملبہ دوا ساز کمپنیوں پر گرا رہی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مشتبہ ادویات بنانے کے خدشات کے پیش نظر ایک فیکٹری میگا فارما کو سیل کر دیا گیا ہے اور تین دوا ساز کارخانوں کے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پنجاب میں وزارت صحت کا قلمدان بھی وزیر اعلیٰ کے پاس ہےتصویر: AP

دوا ساز اداروں کی تنظیم پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نےان کارروائیوں پر احتجاج کیا ہے اور کہا ہے ایسی کارروائیوں سے جان بچانے والی ادویات بنانے والی دیگر کمپنیوں کو بھی شدید خوف سے دوچار کر دیا گیا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے نارتھ زون کے چیئرمین ڈاکٹر ریاض احمد نے بتایا کہ پاکستانی ادویات ساز کمپنیاں اس وقت دنیا کے 52 ملکوں میں ادویات سپلائی کر رہی ہیں اور کئی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی پاکستان کی مقامی کمپنیوں سے اپنی ادویات تیار کروا رہی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی ادویات ساز کمپنیوں کی کوالٹی کو مشکوک بنا کر شاید حکومت بھارتی ادویات کی امپورٹ کی راہ ہموار کر رہی ہے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت : شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں