پنجاب میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ کی وجوہات
9 اپریل 2013اس صورتحال نے گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ صنعتی اور تجارتی صارفین کو بھی شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پانی اور بجلی کے ترقیاتی ادارے واپڈا کے ترجمان رانا عابد نے بتایا کہ بجلی کے بحران کی بنیادی وجہ موسم کی شدت کی وجہ بجلی کی بڑھتی ہوئی طلب کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار کا کم ہو جانا ہے۔ ان کے بقول چند دن پہلے تخریب کاروں نے متعدد پاور ہاوسز کو گیس سپلائی کرنے والی پائپ لائنوں پر حملے کئے تھے، جس کی وجہ سے ان پاور ہاوسز میں بجلی کی پیداوار رک گئی تھی اور سسٹم میں 700 میگا واٹ بجلی کی کمی واقع ہوئی۔ رانا عابد کے مطابق اب صورتحال بتدریج بہتر ہو رہی ہے، کیونکہ منگل کے روز بارہ ہزار ایک سو پچاس میگا واٹ کی ڈیمانڈ کے مقابلے میں بجلی کی پیداوار آٹھ ہزار نو سو پچاس میگا واٹ رہی جس سے بجلی کی قلت تقریبا پانچ ہزار میگا واٹ سے کم ہو کر صرف تین ہزار دو سو میگا واٹ رہ گئی۔
بجلی اور پانی سے متعلقہ امور کی رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی طالب فریدی کہتے ہیں، کہ بجلی کی قلت کے یہ اعدادوشمار اگر درست ہیں تو پھر ملک میں لوڈشیڈنگ چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے لیکن اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے بجلی بند ہونے کا مطلب ہے کہ دال میں کچھ ضرور کالا ہے۔
لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے سابق چیف ایگزیکٹو شرافت حسین سیال بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا موجودہ دورانیہ حیران کن ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہشت گردانہ وارداتیں لوڈشیڈنگ کے عمومی شیڈول کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔
واپڈا کے سابق چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) ذوالفقار علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دہشت گردی کے چند واقعات کی آڑ میں ملک بھر میں جاری بدترین لوڈشیڈنگ دراصل واپڈا کے اہلکاروں کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول دہشت گردی سے تو چند سو میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور سٹیشنز متاثر ہوئے ہیں لیکن موجودہ لوڈشیڈنگ کئی ہزار میگا واٹ بجلی کے بھاری شارٹ فال کو ظاہر کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی کل طلب چودہ ہزار میگا واٹ کے مقابلے میں ملک میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اکیس ہزار میگا واٹ ہے، اس وقت واپڈا ساڑھے آٹھ ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ بجلی پیدا کر رہا ہے۔ ان کے بقول صارفین سے وصولیاں نہ کر سکنے والے واپڈا پاور ہاؤسز تیل اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو واجبات کی ادائیگی کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اب ان کمپنیوں پاور ہاوسز کو گیس اور فرنس آئل کی سپلائی کم کر دی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کم پیدا ہو رہی ہے،
یاد رہے واپڈا نے اس وقت صارفین سے چار سو پچیس ارب روپے وصول کرنے ہیں اور چار سو پینتیس ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ واپڈا کو بجلی کے بل نہ ادا کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد سرکاری اداروں اور شخصیات کی ہے۔
جنرل ذوالفقارکے بقول اگر واپڈا اپنی وصولیاں بہتر بنا کر تیل اور گیس فروخت کرنے والی کمپنیوں کومناسب ادائیگیاں کرنا شروع کردے تو ایک مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم کی جا سکتی ہے۔ ان کے بقول اس وقت اہم فیصلوں کے تمام اختیارات پانی اور بجلی کی وزارت کے پاس ہیں جبکہ نتائج فراہم کرنے کی ذمہ داری واپڈا اور پیپکو کے سر ہے، جو کہ ایک ان پروفیشنل صورتحال ہے۔
ان کے بقول دو ہزار پانچ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان اڑتالیس ہزار میگا واٹ سستی بجلی بنا سکتا ہے، ’’ایک ایسے وقت میں جب بھارت میں بجلی پانچ روپے، بنگلہ دیش میں ساڑھے چار روپے اور چین میں چھہ روپے یونٹ میں تیار ہو رہی ہے، پاکستان میں بجلی کی لاگت چودہ روپے فی یونٹ ہونا اور اس کے باوجود اس کا نہ ملنا افسوسناک ہے‘‘۔ ان کے بقول پاکستان کے بجلی کے بحران کے حل کے لیے کوئلے اور پانی سے بجلی کی تیاری کے بڑے منصوبوں پر توجہ دینا ہوگی۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: امتیاز احمد