پنجاب میں مسلم لیگ ن کے ارکان کے خلاف قریب سترہ ہزار مقدمات
16 جولائی 2018
پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے تک اقتدار میں رہنے والی سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ ن کے قریب سترہ ہزار ارکان کے خلاف مجرمانہ نوعیت کے مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔
اشتہار
خبر ایجنسی روئٹرز نے پاکستانی صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے یہ بات پیر سولہ جولائی کو پولیس کے جاری کردہ ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتائی۔ اس بیان کے مطابق ان مقدمات کی تعداد سولہ ہزار آٹھ سو اڑسٹھ ہے اور اس کی وجہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان کی طرف سے کی جانے والی انتخابی قوانین کی خلاف ورزیاں بنیں۔
پولیس کے جاری کردہ بیان کے مطابق یہ مقدمات گزشتہ چار روز میں صوبہ پنجاب میں درج کیے گئے اور اس دوران لاہور سے، جسے مسلم لیگ ن کی سیاسی طاقت کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس پارٹی کے سینکڑوں ارکان کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
نواز شریف، جنہیں ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے ہمراہ نیب کی ایک عدالت کی طرف سے سزائے قید سنائی گئی تھی، گزشتہ ہفتے ہی اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ لندن سے واپس پاکستان پہنچے تھے۔ انہیں ایئر پورٹ سے ہی گرفتار کر کے اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا تھا۔
انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کے خلاف تنبیہ
اسی دوران پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ پچیس جولائی کے عام انتخابات پر اثر انداز ہونے کے لیے ’مسلسل اور جارحانہ‘ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
پاکستان میں یہ الزامات عام ہیں کہ ملکی فوج آئندہ الیکشن سے پہلے کی صورت حال میں مبینہ مداخلت کر رہی ہے۔ اس دوران گزشتہ ہفتے ملک کے مختلف حصوں میں متعدد خونریز حملوں میں قریب پونے دو سو افراد ہلاک بھی ہو گئے تھے۔ سب سے ہلاکت خیز حملہ ایک خود کش بم دھماکا تھا، جو بلوچستان کے ضلع مستونگ میں کیا گیا تھا۔ اس حملے میں قریب ڈیڑھ سو افراد ہلاک اور دو سو سے زائد زخمی ہو ئے تھے۔
اس تناظر میں اور دیگر معاملات کی وجہ سے پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن نے پیر کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ ابھی سے ایسے کئی عوامل کی نشاندہی کی جا سکتی ہے، جو ان انتخابات کے بالکل غیر جانبدارانہ ہونے کو مشکوک بنا سکتے ہیں۔
م م / ا ا / روئٹرز، اے ایف پی
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔