پنجاب میں نئے الیکشن اور ذکر نئی پاک بھارت جنگ کے خطرے کا
عبدالستار، اسلام آباد
20 اپریل 2023
پاکستانی صوبہ پنجاب میں نئے انتخابات کے انعقاد اور ان کی تاریخ کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظرنہیں آ رہا اور اب اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کے مابین نئی ممکنہ جنگ کے خطرے کا ذکر بھی سننے میں آ رہا ہے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/picture alliance
اشتہار
ان انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے رویوں میں کوئی لچک نظر نہیں آتی۔ ایک طرف ملکی سپریم کورٹ ان انتخابات کو 14 مئی کو ہی کرانے کا پکا ارادہ رکھتی ہوئی نظر آتی ہے تو دوسری طرف حکومت تاحال اس ارادے کی شدید مخالفت کر رہی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت انتخابات نہ کرانے کے حوالے سے مختلف وجوہات بیان کر رہی ہے، جن میں سے ایک وجہ ممکنہ پاک بھارت جنگ کا خطرہ بھی ہے۔ اس موقف پر ناقدین حیران ہیں اور سوال کر رہے ہیں کہ آخر ان انتخابات کا بھلا کسی ممکنہ جنگ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔
اس بات کا پس منظر یہ ہے کہ منگل کے روز پاکستانی وزارت دفاع نے ملکی سپریم کورٹ میں ایک رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں پاکستان کو درپیش خطرات بیان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ملک کو سرحد پار دہشت گردی، عدم سلامتی، کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے لاحق خطرات، داعش کے جنگجوؤں کی مختلف ممالک سے پاکستان واپسی اور بھارتی خفیہ ایجنسی کے خطرناک عزائم کا سامنا ہے حتیٰ کہ بھارت کے ساتھ جنگ بھی ہو سکتی ہے۔ وزارت دفاع کے مطابق یہ وہ عوامل ہیں جو پنجاب میں الیکشن کے انعقاد کے راستے میں حائل ہیں۔
وزارت دفاع نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ عدالت پنجاب میں انتخابات کرانے کے حوالے سے اپنا فیصلہ واپس لے لے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم عمران خانتصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انتخابات ہونے کی صورت میں بھارتی خفیہ ایجنسی پاکستان کے لسانی مسائل، پانی کے تنازعات اور دوسرے مسائل سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پنجاب میں صورتحال ملک میں عدم استحکام پیدا کر سکتی ہے اور یہ کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سینیئر رہنماؤں کے خلاف 'تھریٹ الرٹ‘ پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔
’جنگ کے ذکر سے ساکھ کو نقصان‘
مبصرین وزارت دفاع کی اس رپورٹ کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں اور بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس میں بھارت سے ممکنہ جنگ کا تذکرہ کر کے وزارت دفاع نے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔
تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے جاری کی جانے والی رپورٹوں کو پہلے ہی لوگ اتنی زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن اس رپورٹ کے بعد تو وہ وزارت دفاع کی کسی بھی رپورٹ کو بالکل سنجیدگی سے نہیں لیں گے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں کسی جنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی امکان ہے۔ حکومت نے اس طرح کی رپورٹ جاری کر کے پاکستان کی جگ ہنسائی کرائی ہے اور دنیا سوچ رہی ہے کہ کیا یہ ملک اتنا کمزور ہے کہ وہ اپنے ہاں انتخابات بھی نہیں کرا سکتا۔‘‘
’بھونڈی کوشش‘
تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع کی رپورٹ پنجاب میں انتخابات ملتوی کروانے کی ایک 'بھونڈی کوشش‘ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس رپورٹ سے لوگوں کا حکومت اور اداروں دونوں پر اعتماد کم ہو گا لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ موجودہ صورتحال کی ذمہ دار صرف حکومت ہی نہیں بلکہ ملکی سپریم کورٹ اور عمران خان کی انا بھی اس ماحول کو خراب کر رہی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر توصیف احمد خان کے مطابق اس صورتحال میں سیاسی قوتوں کو نقصان ہو گا جب کہ فوج کا اثر و رسوخ مزید بڑھے گا۔
پاکستانی وزیر خارجہ اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداریتصویر: Irfan Aftab/DW
واضح رہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا تھا، جس کے بعد ملک میں طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں بڑھ گئی تھی۔ سن 2000ء سے لے کر اب تک پاکستان میں بےشمار دہشت گردانہ حملے ہوئے لیکن اس سارے برسوں میں بلدیاتی، صوبائی اور قومی سطح کے انتخابات تو ہوتے ہی رہے تھے۔
اشتہار
’سکیورٹی ماضی سے بہتر‘
دفاعی مبصرین کا خیال ہے کہ ملک میں سکیورٹی کی صورت حال اتنی بری نہیں جتنی کہ ماضی میں تھی۔ دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں الیکشن طالبان دہشت گردوں کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے دوران بھی ہوئے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں آج حالات اتنی برے نہیں جتنے 2008 سے 2013 میں تھے یا دو ہزار اٹھارہ میں تھے۔‘‘
جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کے مطابق جہاں تک پاکستان کی بھارت سے کسی نئی جنگ کے خطرے کا تعلق ہے، تویہ خطرہ تو ہر وقت رہتا ہی ہے، ''چونکہ بھارت پاکستان کا حریف ہے، اس لیے اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ پاکستان میں الیکشن کو ہی التوا میں ڈال دیا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت دفاع کو یہ رپورٹ بالکل جمع نہیں کرانا چاہیے تھی۔ ''اگر ایسا کوئی معاملہ تھا بھی، تو اسے عوامی سطح پر سامنے نہیں آنا چاہیے تھا۔‘‘
پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی (ایف) کے لیڈر مولانا فضل الرحمانتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images
رویوں میں سختی
پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سپریم کورٹ اور حکومت دونوں کے رویوں میں سختی آتی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے آج جمعرات بیس اپریل کے روز پنجاب میں آئندہ انتخابات کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو واپس لینا کوئی مذاق نہیں۔
سپریم کورٹ نے آج مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو بھی طلب کیا اور انتخابات ایک وقت پر کرانے کے حوالے سے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس بات کا عندیہ دیا کہ چودہ مئی کے حوالے سے سنایا گیا فیصلہ واپس نہیں لیا جا سکتا۔
عدالت نے سیاسی رہنماؤں کو اس حوالے سے مذاکرات کا مشورہ بھی دیا اور یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات آج ہی ہونا چاہییں۔
اس پر جمعیت علماء اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ مولانا فضل الرحمان نے ڈیرہ اسماعیل خان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ عمران خان سے مذاکرات کرنے کا کہہ رہی ہے، انہوں نے سوال کیا، ''یہ عدالت ہے یا کوئی پنچایت؟‘‘
انہوں نے سپریم کورٹ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور یہ کہ عدالت جس اختیار کے تحت دھونس جما رہی ہے، وہ اس کا اختیار نہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ جس 'شخص کو سیاست سے باہر رکھنا چاہیے تھا، سپریم کورٹ اسے ہی سیاست کا محور بنا رہی ہے‘۔
دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو بالواسطہ طور پر آڑے ہاتھوں لیا۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی پارلیمان اور سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے ساتھ کھڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بندوق کی نوک پر مذاکرات کے لیے کہا جائے گا، تو اتحادیوں کو منانا مشکل ہو گا۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔