1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں پولنگ مکمل، ووٹوں کی گنتی جاری

11 مئی 2013

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے چھتیس اضلاع میں بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹ ڈالے جانے کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی شروع کر دی گئی ہے۔

تصویر: DW

صوبے بھر میں لڑائی جھگڑوں کے چند ایک واقعات کے باوجود صوبے بھر میں پولنگ کی فضا بڑی حد تک پرامن رہی اور دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا۔

صوبہ پنجاب میں ہفتے کے روز ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کے زیادہ ٹرن آوٹ کی وجہ سے انتخابی عملے کی کارکردگی بڑی حد تک سست رہی۔ کئی علاقوں سے انتخابی عملے اور سامان کے بر وقت نہ پہنچ سکنے، بیلٹ پیپرز تبدیل ہوجانے، ووٹرز کی فہرستیں نہ مل سکنے، انتخابی عملے کے تعاون نہ کرنے اورعملے کی طرف سے ووٹروں کو ووٹنگ نمبرز کی پرچی لانے پر بھی مجبور کرنے کی شکایات ملتی رہیں۔ بعض لوگوں کی طرف سے پولیس اہلکاروں کے نا مناسب رویے کی شکایات بھی سامنے آتی رہیں۔

لاہورکے ایک پولنگ اسٹیشن پر موجود پیپلز پارٹی کی ایک رہنما ساجدہ میر نے بتایا کہ انتخابی عملے کی بد نظمی کی وجہ سے لوگوں کو ووٹ ڈالنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

شمالی لاہور کے ایک پولنگ اسٹیشن پر فرائض انجام دینے والے ایک پریزائڈنگ افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست پر بتایا کہ الیکشن کمیشن کے افسران میں کمیونیکیشن اور کوارڈینیشن کا فقدان تھا۔ ان کے بقول وہ دو دنوں سے نہیں سو سکے۔ انہیں آج صبح چھے بجے انتخابی سامان دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انتخابی عملے کے پاس ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی نہیں تھی۔ الیکشن کمیشن نے انہیں خدمات کا معاوضہ چودہ سو پچاس روپے دیا ہے لیکن ان کی اپنی جیب سے اب تک چھہ ہزار روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

پنجاب میں ووٹرز ٹرن آؤٹ ماضی کے مقابلے میں خاصا زیادہ دیکھا گیا ہے۔تصویر: Getty Images/Daniel Berehulak

ووٹ ڈالنے کے حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کے باوجود لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ بعض علاقوں مٰں ووٹروں کو ووٹ ڈالنے کے لیے طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر انتظار کرنا پڑا۔ پانچ بجے کے بعد پولنگ اسٹیشنز کے احاطے میں موجود تمام لوگوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔

بعض علاقوں سے انتخابی ضابطہء اخلاق سے روگردانی کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ کئی امیدواروں کی طرف سے امیدواروں کو گھروں سے لانے کے لیے ٹرانسپورٹ بھی فراہم کی جاتی رہی۔

وسطی پنجاب کے علاقوں میں ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت ووٹروں کا ٹرن آوٹ کافی زیادہ رہا۔ لاہور کے پولنگ اسٹیشنوں پر بوڑھوں، معذوروں اورعام طور پر ووٹ نہ ڈالنے والی امیر گھرانوں کی خواتین کے علاوہ ویل چئیر پر آنے والے کئی مریض بھی دیکھے گئے۔ بعض ووٹر دوسرے ملکوں سے صرف اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے بھی پاکستان آئے ہوئے تھے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق عوام کی انتخابی عمل میں بھرپور شمولیت پاکستان میں جمہوری عمل کی تقویت کے لیے ایک اچھا شگون ہے۔ حاکم علی نامی ایک بزرگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دیا ہے اور انھوں نے دعا کی کہ اللہ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان کو اچھی قیادت عطا کرے۔

میاں نواز شریف کے آبائی حلقے این اے ایک سو انیس کے ایک پولنگ سٹیشن میں موجود علی حیدر نے بتایا کہ انہوں نے مسلم لیگ نون کو ووٹ اس لیے دیا ہے کیوں کہ اس پارٹی نے پنجاب کو اپنی اچھی کارکردگی سے بدلا ہے۔ انہیں امید ہے کہ یہ پارٹی اب پاکستان کو بھی بدلے گی اور بجلی کے بحران کو ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

اسی پولنگ اسٹیشن پر موجود ایک اور نوجوان محمد کاشف کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنا ووٹ پاکستان تحریک انصاف کو دیا ہے۔ ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بار بار آزما چکے ہیں اور یہ جماعتیں پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہیں، اس لیے اب عمران خان کو موقعع دینا چاہیے۔

ادھر لاہور کے مال روڈ پر تحریک منہاج ا لقرآن کی طرف سے انتخابات کے خلاف دھرنا دیا گیا۔ یہاں موجود ایک نوجوان رعنا محمد شعیب نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ موجودہ انتخابات دھاندلی کا نتیجہ ہیں اور اس سے ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکیں گے۔ انہوں نے انتخابی نظام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا اور انتخابات کے خلاف نعرے لگائے۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: شامل شمس

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں