پنجاب میں پی ٹی آئی کا موثر احتجاج کیوں نہ ہو سکا؟
18 اکتوبر 2024احتجاج کی یہ کال پاکستان تحریک انصاف نے مجوزہ آئینی ترامیم اور عمران خان کی قید کے خلاف دی تھی۔
لاہور میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے دن دو بجے لبرٹی چوک پر احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن سہ پہر کو پی ٹی آئی نے یہ مقام بدل کر مال روڈ پر جی پی او چوک پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم وہاں شام ساڑھے پانچ بجے تک صرف تین خواتین بغیر کسی پرچم اور پوسٹر کے پہنچیں، جنہیں پولیس نے فورا حراست میں لے لیا۔
دوسری جانب فیصل آباد میں ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں بھی کوئی درجن بھر لوگ شریک ہوئے اور وہ بھی زیادہ دیر تک اپنا احتجاج جاری نہ رکھ سکے۔ صوبے کے بعض بڑے شہروں سے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ٹولیوں کی صورت میں احتجاج کرنے کی اطلاعات ملی ہیں۔
تحریک انصاف کے کارکن کیوں نہیں نکلے؟
پاکستان تحریک انصاف کے میڈیا سیل سے وابستہ ایک صاحب نے اپنا نام ظاہر نہ کرنی کی درخواست پر بتایا کہ یہ درست ہے کہ احتجاج کی اس اپیل پر کوئی اچھا رد عمل دیکھنے میں نہیں آ سکا، لیکن ان کا اصرار تھا کہ ہو سکتا ہے کہ رات کے وقت احتجاجی مظاہرے ہو جائیں۔
ملک بھر میں احتجاج کے لیے دی جانے والی پی ٹی آئی کی اس کال سے پہلے پنجاب حکومت نے دفعہ 144 لگا کر صوبے بھر میں احتجاج کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی درخواست پر پنجاب حکومت نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی بند کر دیا تھا۔
احتجاج کی اس کال سے پہلے پنجاب کے بڑے شہروں میں پولیس نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ سیاسی حلقوں میں پی ٹی آئی کے متعدد ارکان پارلیمنٹ کے رشتہ داروں کے اٹھائے جانے کی اطلاعات بھی گردش کرتی رہی ہیں۔
جمعے کو صبح سے ہی سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر کے راستے بند کیے گئے تھے۔ لاہور شہر کی اہم سڑکوں پر پولیس کے مسلح اہلکار تعینات کیے گئے تھے جبکہ لاہور کے لبرٹی چوج اور جی پی او چوک کو پولیس نے گھیرے میں لیے رکھا اور وہاں قیدیوں کو لے جانے والی بسیں اور واٹر کینن گاڑیاں بھی وہاں موجود تھیں۔
جمعے کے روز صوبہ پنجاب کے شہری علاقوں سے انٹرنیٹ کے سست ہو جانے، موبائل نیٹ ورک کے کام نہ کرنے اور سوشل میڈیا سائئٹس کے سست ہو جانے کی شکایات بھی ملتی رہیں۔
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سینیئر تجزیہ کار خالد فاروقی نے بتایا کہ مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی کال پر کارکنوں کا رد عمل کافی مایوس کن رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کی پہلے اور دوسرے نمبر کی قیادت یا تو گرفتار ہے اور یا روپوش ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہاں احتجاج اور جلسے کی کامیابی کے لیے دوسرے صوبوں کے لوگ درکار ہوتے ہیں۔ ‘‘
ایک صحافتی ادارے کے گروپ ایڈیٹر اور تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں اتحاد نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا، ''ان میں اس وقت دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک گروپ احتجاج کے حق میں نہیں ہے جبکہ جیلوں میں بیٹھے اور روپوش پی ٹی آئی لیڈروں کا گروپ اپنی مشکلات کے ازالے کے لیے عوامی احتجاج کا متمنی ہے۔ ‘‘
سلمان غنی کے خیال میں اس احتجاجی کال کی ناکامی کی ایک اور وجہ بغیر تیاری کے احتجاج کی کال دینا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹ بنک کو موبلائز کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی اور ان کے کارکنوں کے منظم نہ ہونے کی وجہ سے اس پارٹی کی سیاست کو نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے دباؤ ڈالنے کی اہلیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ بات درست نہیں کہ لوگ پولیس کے خوف سے باہر نہیں نکلے۔
سلمان غنی کا کہنا تھا، ''ہم نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دیکھا ہے کہ سیاسی کارکن ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے احتجاج کے لیے باہر نکلتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو اپنی صفوں میں اتحاد لانے کی ضرورت ہے۔ اسے سمجھنا چاہیے کہ اگر آئینی ترامیم کا معاملہ اسلام آباد میں ہے تو پھر اس احتجاج کو اضلاع تک لانے کی کیا ضرورت ہے۔ ‘‘
ریپ کے مبینہ واقعے پر لاہور ہائی کورٹ کا فل بنچ
ادھر لاہور میں ہونے والی ایک اور پیش رفت میں پنجاب کالج کے واقعے پر تشکیل دی گئی انکوائری کمیٹی کے اپنی حتمی رپورٹ وزیر اعلی کو بھجوا دی ہے جبکہ اس واقعے کے حوالے سے وائرل خبر کی تحقیقات کے لیے ایک جے آئی ٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید کی سربراہی میں چھ رکنی جے آئی ٹی میں پولیس اور حساس اداروں تین تین نمائندے شامل ہیں۔ آج لاہور میں ہونے والی جے آئی ٹی کے پہلے اجلاس میں اس واقعے کی دستیاب معلومات کے بارے میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں مبینہ ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟
عدالت نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا، اور اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔