1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 پنجاب میں کورونا بحران سنگین، ہسپتالوں میں جگہ ختم

9 جون 2020

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کورونا وائرس کا بحران تشویشناک مرحلے میں داخل ہوگیا ہے اور مقامی ہسپتالوں میں  مریض سہولتوں کی کمی کا شکار ہو رہے ہیں۔

تصویر: imago images/Pacific Press Agency/R. S. Hussain

عالمی ادارہ صحت نے پنجاب میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صوبے میں دو ہفتے کا مکمل لاک ڈاؤن  کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

عالمی ادارہ صحت  نےپنجاب حکومت کے نام لکھے گئے اپنے ایک تازہ خط میں کہا ہے کہ کہ ایس او پیز پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال بگڑ رہی ہے ، ان حالات میں پنجاب بھر میں کورونا کے روزانہ کم از کم 50 ہزار ٹیسٹ ہونے چاہیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت پنجاب میں کورونا کے نو ہزار کے قریب ٹیسٹ روزانہ کیے جا رہے ہیں۔

خط کے مطابق پاکستان میں کورونا کے مثبت کیسزکی تعداد ایک لاکھ سےبڑھنا خطرے کی بات ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے وقت روزانہ ایک ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے تھے، بعدازاں لاک ڈاؤن میں نرمی سے کورونا کیسز کی یومیہ تعداد 2 ہزار اور لاک ڈاؤن ختم کرنے سےکیسز کی تعداد 4 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ  پاکستان کورونا مریضوں کے لحاظ سے دنیا کے دیگر ملکوں کی فہرست میں چین، قطر، کینیڈا اور سعودی عرب سے بھی آگے نکل کر 15 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔

منگل کے روز سرکاری طور پر جاری کیے جانے والے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کی بیماری کے نتیجے میں ایک ہی دن میں ایک سو پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ ایک ہی دن میں جاں بحق ہونے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ پاکستان میں اس بیماری کی وجہ سے اب تک دو ہزار ایک سو بہتر افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جہاں اس بیماری سے متاثر ہونے والے لوگوں کی تعداد چالیس ہزار آٹھ سو انیس تک پہنچ چکی ہے جبکہ یہاں  اس بیماری کی وجہ سے  اب تک سات سو تہتر افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق پنجاب میں کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر لاہور ہے جہاں صوبے بھر کے مریضوں کی کل تعداد کے ایک تہائی سے بھی زیادہ مریض  ہیں۔  لاہور میں کورونا سے بیس ہزار ایک سو تہتر افراد متاثر ہوچکے ہیں، جبکہ دوسرے نمبر پر راولپنڈی میں تین ہزار دو سو چھبیس ، تیسرے نمبر پر ملتان جہاں دو ہزار آٹھ سو چوالیس مریض ہیں، چوتھے نمبر پر فیصل آباد میں دو ہزار آٹھ سو سترہ اور پانچویں نمبر پر گوجرانوالہ ہے جہاں ایک ہزار آٹھ سو چھتیس مریض ہیں۔

 پنجاب میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ وہ لوگ متاثر ہوئے ہیں جن کی عمریں سولہ سے پینتالیس سال کے درمیان ہیں۔ جبکہ کورونا سے متاثر ہو کر ہلاک ہونے والے افراد میں اسی فی صد لوگ ایسے تھے جن کی عمریں ساٹھ سال سے زیادہ تھیں۔ اور وہ کئی دیگر طبی پیچیدگیوں کا بھی شکار تھے۔ پنجاب میں طبی عملے کے سات سو اکیس افراد بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ یاد رہے پنجاب میں آٹھ ہزار دو سو ترانوے افراد کورونما وائرس کی بیماری کے بعد صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

پنجاب میں کورونا مریضوں کے درجنوں لواحقین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے سہولیات تیزی سے ختم ہو رہی ہیں، وینٹی لیٹرز نہیں مل رہے، آئی سی یو میں داخلہ نہیں مل رہا۔ کئی نجی اورسرکاری ہسپتالوں میں زیادہ بیمار مریضوں کو نہیں لیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ ان کے بقول ابھی صوبے میں آئی سی یو میں چالیس فیصد مریضوں کو رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ان کے خیال میں اگر ایس او پیز پر عمل نہ ہوا تو حکومت لاک ڈاؤن کی طرف جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت کے خط کو کابینہ کے اجلاس میں زیر غور لایا جائے گا۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پنجاب میں کورونا کمیٹی کے وائس چئیرمین اور میو ہسپتال کے چیف  ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر اسد اسلم نے بتایا کہ ہم پنجاب میں جو صورتحال دیکھ رہے ہیں یہ غیر متوقع نہیں ہے یہ سب لاک ڈاؤن کے بعد عوام کی طرف سے لاپرواہی پر مبنی رویہ اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔ ان کے بقول حکومت نے لوگوں کو گھر میں آئسولیٹ کرنے کی سہولت دی لیکن لوگ کورونا کے مریضوں کی بیماری کے شدت اختیار کرنے کے باوجود انہیں بروقت ہسپتال لے کر نہیں آتے جس سے ان کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے اور آئی سی یوز پر دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ '' ہمارے لیے اس وقت سب سے بڑی پریشانی کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے ان مریضوں کی بڑی تعداد ہے جن کی حالت کریٹیکل ہے‘‘  

ڈاکٹر اسد اسلم کے بقول ہمیں جنرل لاک ڈاؤن کی بجائے ''پرسنل لاک ڈاؤن‘‘ کی ضرورت ہے۔ حکومت نے وسائل اور طبی سہولتیں فراہم کر دیں ہیں اب ہم سب کو ذمہ دارانہ رویہ اپنانا ہے،  اگر ہم سب نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو پھر صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔

ڈاکٹر اسد اسلم بتاتے ہیں کہ ان کے خیال میں پاکستان کورونا کی پیک پر پہنچ چکا ہے، لیکن آنے والے دنوں میں صورتحال کیسی ہو گی اس کا انحصار شہریوں کے رویے پر ہوگا۔ ان کے بقول اگر کورونا کی علامات والے مریض ڈاکٹر کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے آرام اور خوراک کا خیال کرکے قوت مدافعت بڑھانے والی ادویات لیں تو مرض کی شدت کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں