آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں کورونا وائرس کے پھيلاؤ کے مختلف علاقوں میں مختلف رجحانات سامنے آ رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں نئے کورونا وائرس کے مجموعی متاثرين کی تقریباً نصف تعداد پنجاب میں ہے۔
اشتہار
سب سے زیادہ کیسز کے ساتھ لاہور میں کورونا وائرس کی شدت بہت زیادہ ہے لیکن دوسری طرف ساہیوال، راجن پور، مظفر گڑھ اور بھکر جیسے علاقوں میں اس کی شدت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں محکمہ پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کیئر کی طرف سے قائم کيے جانے والے کورونا مانیٹرنگ روم سے منگل کی شام جاری کی جانے والی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب بھر میں کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 2,856 تک پہنچ چکی ہے۔ ان میں رائے ونڈ کی تبلیغی جماعت سے منسلک 992 افراد بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب کی مختلف جیلوں میں قید 99 قیدیوں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ صوبے کے تین قرنطینہ سينٹرز میں موجود 701 زائرین میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں ڈی جی خان کے قرنطینہ سينٹر کے 221، ملتان کے 457 اور فیصل آباد کے 23 زائرین شامل ہیں۔
علاوہ ازيں ابھی تک پنجاب کے 1,074 عام شہريوں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے۔ ان میں 469 کیسز کے ساتھ لاہور پہلے نمبر پر، 138 کیسز کے ساتھ گجرات دوسرے نمبر پر، 87 کیسز کے ساتھ راوالپنڈی تیسرے نمبر پر، 42 کیسز کے ساتھ رحیم یار خان چوتھے نمبر پر اور 38 کیسز کے ساتھ گوجرانوالا پانچویں نمبر پر ہے۔ وہاڑی ميں 35 اور جہلم ميں 33 کیسز سامنے آ چکے ہيں۔
رپورٹ ميں امکان ظاہر کيا گيا ہے کہ ساہیوال، راجن پور، مظفر گڑھ اور بھکر ميں يا تو شہریوں میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ نہیں ہو رہے یا پھر وہاں کيسز بالکل ہی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اسی طرح لیہ، اوکاڑہ، جھنگ، پاکپتن اور اٹک سے بھی ابھی تک کورونا وائرس کا صرف ایک ایک کیس ہی رپورٹ ہوا ہے۔ لیکن رائے ونڈ میں موجود تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کورونا وائرس کے مصدقہ مریضوں میں لیہ سے تعلق رکھنے والے ستائیس، مظفر گڑھ کے باون، راجن پور کے نو اور ساہی وال کے سات افراد شامل ہیں۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والے زائرین میں بھی ایسے ہی مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے ممتاز معالج اور پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ امیر الدین میڈیکل کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر نے بتایا کہ نيا کورونا وائرس دراصل شہروں کی بیماری ہے۔ انہوں نے کہا، ''ہم نے نیو یارک، پیرس اور میڈرڈ سمیت دنیا کے بہت سے بڑے شہروں میں اس بیماری کی شدت زیادہ دیکھی ہے۔ اس ليے کہ ایسے تمام علاقے جہاں آبادی زیادہ ہے، وہاں لوگ تنگ گلیوں میں رہتے ہیں جبکہ ان کی آمد و رفت اور میل جول بھی عموماً زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گجرات کی طرح کے وہ شہر جہاں پر دوسرے ملکوں سے لوگوں کا آنا جانا رہتا ہے، وہاں سے بھی کیسز زیادہ آ رہے ہیں۔ یہ وائرس ممکنہ طور پر سفر کے ذريعے زیادہ پھیلتا ہے اور ایئر پورٹس اس کے پھیلاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ اسی ليے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں کورونا وائرس کے مریض یا تو نہیں ہیں یا پھر بہت ہی کم ہیں۔ ‘‘ ايک اور سوال کے جواب ميں ڈاکٹر سردار محمد الفرید ظفر کے مطابق یہ دیکھنے کے ليے کہ کورونا وائرس کے زیادہ کیسز جی ٹی روڈ کے آس پاس کے علاقوں سے کیوں آ رہے ہیں، باقاعدہ تحقیقات کرانا پڑيں گی۔
پاکستان میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے ليے بین الاضلعی آمد و رفت کو محدود کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اس حوالے سے جب پروفیسر فرید ظفر سے پوچھا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک قانونی معاملہ ہے اور اسی ليے اس پر ان کا بات کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کورونا کی بیماری کا خاتمہ لوگوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ ''اگر لوگ رضاکارانہ طور پر اپنی آمد و رفت کو محدود کر لیں، تو کورونا کے حوالے سے پاکستان میں بڑی پيش رفت سامنے آ سکتی ہے۔‘‘ ڈاکٹر فرید ظفر سمجھتے ہیں کہ گرمی کی شدت ميں اضافے سے بھی کورونا وائرس کی نقصان پہنچانے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
'لاہور ایسا تو پہلے کبھی نہ تھا'
لذیذ پکوان، سیاحتی مقامات، بازاروں اور پارکوں میں لوگوں کے ہجوم والے شہر، لاہور کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا کے باعث شہر کی گلیاں، بازار اور دیگر سیاحتی مقامات سنسان پڑ گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں
لاہور میں جزوی لاک ڈاؤن جاری ہے، سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ، سیاحتی مقامات اور دفاتر بند ہیں ۔ لاہور کے مینار پاکستان کا یہ سبزہ زار ملک بھر سے آنے والے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا تھا، اب یہ ایک سنسان سی جگہ کا منظر پیش کر رہا ہے۔ محکمہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پنجاب میں کورونا کے قرنطینہ میں موجود زائرین کے بعد پنجاب میں کورونا کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد لاہور میں ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
پولیس کے ناکے
شہریوں کو گھروں تک محدود کرنے کے لیے پولیس متحرک ہے، جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں، لاہور پولیس کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد سے ان ناکوں پر اب تک پچپن ہزار افراد کو روکا گیا ہے۔ ایک ہزار پانچ سو بتیس گاڑیاں اورموٹرسائیکلیں دفع ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بند کر دی گئی ہیں، غیر ضروری سفر کرنے والے دو ہزار سے زائد مسافروں سے شورٹی بانڈز لیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
فوج کی گاڑیوں کا فلیگ مارچ
شہر میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے، وقفے وقفے کے ساتھ پولیس اور فوج کی گاڑیوں کا شہر کی مختلف سڑکوں پر فلیگ مارچ ہو رہا ہے۔ لاہور میں امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے پیر کے روز ہونے والے فلیگ مارچ میں پاک آرمی، رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں نے حصہ لیا۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جی پی او چوک
لاہور میں اگرچہ لاک ڈاون جزوی ہے اور شہریوں کی محدود تعداد کو ادویات اور اشیائے خردونوش خریدنے کی مخصوص اوقات میں اجازت ہے، لیکن لاہور کے مال روڈ پر واقع جی پی او چوک کا یہ علاقہ جو عام طور پر بہت بارونق ہوتا ہے، اب یہاں دوکانیں اور دفاتر بند ہیں۔ یہ علاقہ کبھی کبھی تو ویرانے کا سا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور کا فیصل چوک
لاہور کا فیصل چوک بھی روایتی رونقوں سے محروم ہے، واپڈا ہاوس کی یہ بلند و بالا عمارت بھی افسردگی کا احساس لیے ہوئے ہے، اس سے ملحقہ پٹرول پمپ پر اکا دکا گاڑی دکھائی دیتی ہے، واپڈا ؛ہاوس کے آس پاس کے علاقوں میں الحمرا آرٹس سنٹر بند ہونے سے فنون لطیفہ کی یہاں تمام سرگرمیاں ٹھپ ہیں، سینما اور تھیٹر بھی بند ہیں اور یہاں کے فائیو سٹار ہوٹل میں بھی کوئی گاہک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
کورونا کا خوف
اندرون شہر اور لاہور کے بعض دوسرے علاقوں میں چھوٹے گھروں میں بند ہو کر رہنا آسان کام نہیں ہے، انارکلی سے ملحقہ علاقے نیلا گنبد میں ایک شہری بچوں کے ساتھ کچھ دیر کے لیے باہر نکلا ہے۔ لیکن کورونا کے خوف سے اس نے بچوں کو حفاظتی ماسک پہنا رکھے ہیں، اب شہر میں زیادہ تر لوگ اسی طرح ہی نظر آ رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
ریلوے اسٹیشن بھی ویران
ٹرینین بند ہو جانے کے بعد تو لاہور کا ریلوے اسٹیشن بھی ویران ہو گیا ہے، یہاں پر اب ٹھیلے والے، قلی، مسافر اور ریلوے اہلکاروں سمیت کوئی نظر نہیں آ رہا، ریلوے اسٹیشن کے اندر مختلف پلیٹ فارموں پر بھی ہو کا عالم ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ڈیلی ویجز ملازمین کے لیے ایک امدادی سکیم کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گھر سے کیوں نکلے تھے؟
شہر میں آنے والے جانے والے تمام راستوں پر پولیس اہلکاروں کے ساتھ ساتھ فوجی جوان بھی موجود ہیں۔ اس تصویر میں لاہور کے راوی پل پر شاہدرہ کے شہری اپنے گھروں کو جانے کے لئے موجود ہیں، ان کو پولیس کو بتانا پڑتا ہے کہ وہ اپنے گھر سے کیوں نکلے تھے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
تمام ریسٹورنٹس بند
زندہ دلوں کے شہر لاہور میں اس وقت تمام ریسٹورنٹس بند ہیں، البتہ کھانا آرڈر پر گھر بھجوانے کی سہولت موجود ہے، میڈیکل سٹورز کے علاوہ کھانے پینے کی دوکانیں کھلی ہوئی ہیں، اس تصویر میں مزنگ کے علاقے میں ایک بزرگ سبزی خرید رہے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا
لاہور میں متعدد صحافیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہو جانے کے بعد لاہور پریس کلب کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔ حکومتی شخصیات نے کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ویڈیو پریس کانفرنسز شروع کر دی ہیں، زیادہ تر صحافتی امور ڈیجیٹل طریقے سے سرانجام دیے جا رہے ہیں۔ میڈیا کے کارکنوں کی کم سے کم تعداد کو باری باری دفتری امور کی انجام دہی کے لیے بلایا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
عوامی آگاہی مہم
لاہور پولیس کے اہلکاروں کی طرف سے شہر کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو گھر سے غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلنے کی تلقین پر مشتمل اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ محکمہ صحت پنجاب کی طرف سے بھی کورونا سے بچاو کے لیے عوامی آگاہی کے لیے موٹرسائیکلوں اور رکشوں پر مہم چلائی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد کی شرکت
پاکستان کے کئی علمائے کرام کی طرح پاکستان کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل نے کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شہریوں کو مساجد میں بڑے اجتماعات منعقد نہ کرنے کی اپیل کی ہے، لاہور کی بادشاہی مسجد میں بھی جمعے کی نماز میں شہریوں کی محدود تعداد نے شرکت کی تھی، تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی افراد کے کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹیو آئے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
شہریوں میں بے چینی
لاہور میں آٹے کی قلت اور کرفیو کے ممکنہ نفاذ کی خبریں بعض اوقات شہریوں میں بے چینی کا باعث بنتی ہیں اور گراسری سٹورزسمیت متعدد جگہوں پر رش لگ جاتا ہے، پولیس اہلکار ایسے رش کو کلیئر کرانے کی تگ و دو کرتے ہیں۔
تصویر: DW/T. Shahzad
گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی
لاہور کے تمام گوردواروں، مندروں اور کلیساؤں میں بھی اجتماعات پر پابندی عائد کی جا چکی ہے، لاہور کے مال روڈ پر واقع اس کتھیڈرل چرچ کے ملحقہ سکول کو بند کر دیا گیا ہے اور چرچ کی عمارت کے آس پاس کوئی شخص بھی دکھائی نہیں دے رہا۔