1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

7 دسمبر 2022

صوبہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں جاری ہیں لیکن حزب اختلاف کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہیں جہاں وفاداریاں تبدیل کرنے والےارکان پنجاب اسمبلی کو نااہل قراردیے جانے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کر رہے ہیں۔

Islamabad Treffen Shahbaz Sharif  Maulana Fazal-ur-Rehman
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

پنجاب میں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی کوششیں جاری ہیں لیکن حزب اختلاف کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہیں جہاں وفاداریاں تبدیل کرنے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو نا اہل قراردیے جانے والے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل سنی جانے والی ہے۔

پنجاب میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال دلچسپ مرحلے میں داخل ہو گئی ہے جہاں اس وقت ساری توجہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق میں ابھرنے والے تازہ تنازعے کی طرف مرکوز ہو چکی ہے، یاد رہے کہ پی ٹی آئی نے جلد الیکشن کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اسمبلیوں سے نکل جانے کا اعلان کر رکھا ہے اور عمران خان پنجاب اسمبلی کی تحلیل چاہتے ہیں لیکن ان کے اتحادی چوہدری پرویز الہی نے مارچ سے پہلے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے بقول ان دو اتحادی پارٹیوں میں بڑھتے ہوئے اختلافات پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے عمل کو آسان بنا سکتے ہیں۔

کیا پنجاب میں حکومت بدلنے جا رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں سینیئر تجزیہ کار جاوید فاروقی نے بتایا کہ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ پی ڈی اے میں شامل جماعتیں اگلے الیکشن سے پہلےپنجابمیں حکومت کی تبدیلی کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس سے پہلے اس کام کے لیے انتیس نومبر کے فوراً بعد کی ایک نفسیاتی ڈیڈ لائن رکھی گئی تھی لیکن اب نئے سیاسی حالات میں نئے سرے سے ورکنگ ہو رہی ہے۔ پاکستان کے ایک معروف انگریزی روزنامے سے وابستہ سینیئر صحافی امجد محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کی جماعتیں اپنے اپنے کارکنوں کا مورال بہتر رکھنے کے لیے پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے حق اور مخالفت میں بلند و بانگ دعوے کر رہی ہیں۔ ان کے بقول، ''اس سلسلے میں جتنا شور سنا جا رہا ہے اتنی گراؤنڈ پر سرگرمی دکھائی نہیں دے رہی۔‘‘ لیکن ان کو یقین ہے کہ عدالتی محاذ پر اس سلسلے میں بہت سنجیدگی کے ساتھ کام ہو رہا ہے۔

مسلم لیگ ن نے حمزہ شہباز کو مختصر مدت کی وزارت اعلٰی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہےتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/PPI

ساری نظریں سپریم کورٹ کی طرف

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا ایک راستہ سپریم کورٹ کی طرف سے آتا ہے جہاں پارٹی پالیسی کے برخلاف ووٹ دینے والے ارکانپنجاب اسمبلی کے خلاف سنائے جانے والے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت ہونے والی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کا ووٹ شمار نہیں ہوگا اور وہ نا اہل بھی ہوں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا خیال ہے کہ ان ارکان اسمبلی کا ووٹ اگر شمار ہی نہیں ہوا تو جرم کے سرزد ہوئے بغیر وہ کیسے نا اہل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ چوہدری شجاعت حسین کی اپیل بھی سنے گی جس میں کہا گیا ہے کہ ارکان اسمبلی کو ووٹ دینے کا حکم پارلیمانی لیڈر نہیں بلکہ پارٹی کے سربراہ کا استحقاق ہے جاوید فاروقی کہتے ہیں کہ اگرنظر ثانی کی یہ اپیلیں منظور ہوگئیں تو پنجاب میں پانسہ پلٹ جائے گا اور حکومت کی تبدیلی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔

پنجاب حکومت کیسے تبدیل ہوگی؟

سپریم کورٹ کے علاوہ پنجاب میں حکومت تبدیل ہونے کے لیے ممکنہ آپشنز کیا ہیں۔ اس سوال کے جواب میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ق لیگ پی ٹی آئی کو چھوڑ کر پی ڈی اے کے ساتھ آملے۔ اس سلسلے میں صدر آصف علی زرداری مبینہ طور پر بیک چینل بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔  ایک آپشن عدم اعتماد کی قرار داد لانے کا ہے اس میں کسی ایک فریق کے لیے اپنے طور پر ایک سو چھیاسی ممبرز پورے کرنا آسان نہیں ہوگا۔ وزیراعلٰی پرویز الہی کو مسلم لیگ نون کا گورنر پنجاب اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی کہہ سکتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے ایک سینیئر رہنما نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اگر چھ حکومتی ارکان کو اسمبلی پہنچنے سے کسی طرح روک دیا جائے تو پرویز الہی کے لیے اعتماد کا ووٹ لینا ممکن نہیں ہوگا۔

ضمنی انتخابات: عمران خان بقابلہ حکمران اتحاد

آصف علی زرداری مبینہ طور پر بیک چینل بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: B.K. Bangash/dpa/AP/picture alliance

پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی کون ہوگا؟

پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کی صورت میں نئے وزیراعلی کے طور پر کئی نام سامنے آ رہے ہیں۔ جب تک جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر نہیں ہوئے تھے تب تک مسلم لیگ ن کے رہنما ملک احمد خان کا نام ممکنہ طور پر نئے وزیراعلٰی کے طور پر سامنے آتا رہا تھا لیکن اب حمزہ شہباز شریف سمیت کئی نئے اور نام بھی زیر غور ہیں۔ مسلم لیگ ن کے قابل اعتماد ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پارٹی نے آئندہ انتخابی مہم میں اپنوں کو نوازنے کے الزام سے بچنے کے لیےحمزہ شہباز کو مختصر مدت کی وزارت اعلٰی سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے بقول اعتماد سازی کے ایک حربے کے تحت متفقہ طور پر طے شدہ ایجنڈے کی پنجاب میں تکمیل کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو بھی زیرغور لایا جا سکتا ہے۔ جاوید فاروقی کے بقول ایک آپشن یہ بھی ہے کہ پرویز الٰہی سابق وزیر اعلٰی عثمان بزدار کی طرح اپنے علاقے اور چند انتخابی حلقوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور ایک خاموش خفیہ مفاہمت کے ذریعے اسی سیٹ اپ سے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیے جائیں۔  لیکن اس تجویز کو مسلم لیگ ن کے اندرونی حلقوں میں کافی مخالفت کا سامنا ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کے لیے ان حالات میں اپنا وزیراعلٰی لانا ممکن نہیں ہے تاہم مبصرین کے بقول اگر کوئی معجزہ ہوجائے تو پی ٹی آئی کے سینیئر منسٹر اسلم اقبال بھی وزیراعلی کے امیدوار ہو سکتے ہیں۔

اگلے انتخابات سے پہلے پنجاب کی حکومت کیوں اہم ہے؟

امجد محمود بتاتے ہیں کہ پنجاب حکومت ملنے سے مسلم لیگ ن کو اپنے امیدواروں کو ترقیاتی فنڈز دینے، ووٹرز کو نوازنے اور اپنے انتخابی حلقوں میں ترقیاتی کام کروانے میں سہولت ہوگی اور اس کا اثر اگلے الیکشن پر ضرور ہوگا۔ اسی طرح اگر پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں تو ایک تو اسے پچیس مئی کی طرح حکومتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسرے وہ نگران سیٹ اپ کے لیے مشاورتی عمل سے بھی باہر ہو جائے گی۔ ان کے بقول ضروری نہیں کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے بنایا جانے والا نگران وزیراعلٰی پی ٹی آئی کے حق میں بہتر ہو۔ 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں