پنجاب پولیس کا کریک ڈاؤن، نفرت انگیز تقریروں میں کمی
15 جولائی 2016پاکستان میں مذہبی رہنماؤں کی طرف سے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز تقاریر ایک اہم مسئلہ بن چکی ہیں۔ لاؤڈ اسپیکر کے غلط استعمال کے خلاف سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کافی عرصے سے آواز اٹھاتی آئی ہیں۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور اقلیتوں کے خلاف توہین مذہب کے الزام میں پرتشدد واقعات پر بھی مبینہ طور پر قریبی مساجد کے لاؤڈ اسپیکر استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔
پاکستان میں نفرت انگیز تقاریر کرنے اور ایسا مواد شائع کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا فیصلہ دسمبر دو ہزار چودہ میں کیا گیا تھا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اب بھی حکومتی کوششیں ناکافی ہیں اور اس سے بھی سخت اقدامات کیے جانا ضروری ہیں۔
پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل مشتاق احمد سکھیرا کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ایسے نو ہزار پانچ سو افراد کے خلاف کارروائی کی گئی، جو لاؤڈ اسپیکروں کا غلط استعمال کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں لاؤڈ اسپیکر صرف اذان کے لیے استعمال کیے جاتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کا غلط استعمال شروع ہوتا گیا۔
سکھیرا کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہنا تھا، ’’ساؤنڈ سسٹم کا غلط استعمال ختم ہونا چاہیے اور اس کے غلط استعمال میں کمی میرے لیے ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل کا کہنا تھا کہ جن مساجد میں نفرت پر مبنی تقاریر کی جاتی تھیں، ان کی مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے جبکہ دیواروں پر لکھے گئے نامناسب نعرے بھی ہٹا دیے گئے ہیں اور فرقہ واریت والے ایڈورٹائزنگ بورڈز بھی۔
دوسری جانب لاہور اور پنجاب کے بڑے شہروں میں اقلیتوں کے نمائندوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ اب ان کی قریبی مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں کا غلط استعمال بند ہو گیا ہے۔ پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے ایک ترجمان سلیم الرحمان کا روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ بڑے شہروں میں تو پولیس سختی سے کنٹرول کر رہی ہے لیکن چھوٹے قصبوں اور دیہات میں ابھی تک لاؤڈ اسپیکروں پر نفرت انگیز تقاریر کی جاتی ہیں۔‘‘
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس (این سی جے پی) کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر ابھی بھی ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز مواد لکھا اور پھیلایا جا رہا ہے، ’’معاشرے میں پائی جانے والی عدم برداشت کی سطح میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔‘‘
تاہم سکھیرا کا کہنا تھا کہ پنجاب میں لشکر جھنگوی جیسے فرقہ وارانہ گروپوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے جرائم کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے جبکہ ایک برس پہلے کی نسبت قتل کی وارداتوں میں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’’دہشت گردی، فرقہ واریت اور خودکش حملوں کے واقعات میں چھپن فیصد کمی ہوئی ہے۔‘‘