پنجاب کی يونيورسٹيوں ميں قرآنی تعليم، ليکن ترجمہ کون سا؟
17 جون 2020
پاکستان میں سماجی اور تعلیمی امور کے ماہرین سمیت کئی حلقے گورنر پنجاب کے اس حکم پر تنقید کر رہے ہیں، جس ميں انہوں نے صوبے میں جامعات کے طلبہ کے ليے قرآنی ترجمے کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ترجمہ کون سا؟
اشتہار
حکومت پنجاب کی طرف سے جاری کردہ ایک حالیہ نوٹیفیکیشن کے مطابق جامعات کے طلبا و طالبات کے ليے اردو ترجمے کے ساتھ قرآن کے مطالعے کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے اور جو طلبہ و طالبات ایسا نہیں کریں گے، انہیں ڈگریاں جاری نہیں کی جائیں گی۔
سماجی علوم کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس حکومتی اقدام سے ملک میں فرقہ واریت کو مزيد تقويت مل سکتی ہے اور مذہبی طبقات کے اثر و رسوخ میں مزید اضافہ ہو گا۔ معروف پاکستانی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ اس ضمن ميں اولين مسئلہ تو یہ ہے کہ ترجمہ پڑھایا کون سا جائے گا؟
وہ کہتے ہیں، ''قرآن کا بہت آسان ترجمہ ڈپٹی نذیر احمد نےکیا تھا لیکن پاکستان میں مختلف مذہبی مکاتب فکر موجود ہیں۔ ان کے علماء میں سے اس ترجمے پر کوئی متفق نہیں ہو گا۔ پھر مختلف مکاتب فکر کے لوگ مختلف تراجم و تفاسیر پڑھتے ہیں۔ يہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ تراجم پڑھائے گا کون؟ ان کو پڑھانے کے ليے ہر فرقے کے علماء کہیں گے کہ معلم ان کے فرقے کا ہونا چاہیے۔ اس طرح جامعات میں مختلف مذہبی شخصیات کی تعداد اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ یوں ہم دراصل یونیورسٹیوں کو بھی مذہبی مدرسے بنا دیں گے اور پھر ایسی مذہبی شخصیات سماجی علوم پر بھی فتوے دینے لگیں گی۔‘‘
ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور ریاست کو مذہبی امور سے دور رہنا چاہیے، کیونکہ یہ تو ہر فرد کا انفرادی معاملہ ہے، ''اگر حکومت تعلیم کو واقعی بہتر بنانا چاہتی ہے تو دوکروڑ سے زائد بچے جو بنيادی تعليم کی سہولت سے محروم ہيں، انہیں تعلیم سے آراستہ کرے۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں اسکولوں میں بیت الخلاء نہیں ہیں، پینے کا صاف پانی ميسر نہیں، دیواریں اور چھتیں کسی وقت بھی گر سکتی ہیں، جس سے بچوں کی ہلاکت بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت کو ان مسائل پر توجہ دينا چاہيے اور تعلیمی بجٹ کو مجموعی قومی پیداوار کے کم از کم بھی پانچ فیصد کے برابر ہونا چاہیے۔‘‘
کئی پاکستانی حلقوں کا يہ بھی کہنا ہےکہ حکومت پنجاب کے علم میں ہی نہیں کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے ترجمے اور تفسیر کے نام پر پاکستانی علماء کے مابین کتنے اختلافات پائے جاتے ہیں اور اس حکومتی اقدام سے ان اختلافات میں مزید شدت آئے گی۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دانشور ایوب ملک نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا مودودی نے قرآن کا ترجمہ کیا، جسے تفہیم قران کہا جاتا ہے۔ بریلوی علماء کو اس ترجمے پر بھی اعتراض ہے، جو دیو بندی عالم اشرف تھانوی نے کیا تھا اور جس کی تفسیر مفتی شفیع نے معارف القران کے نام سے کی تھی۔‘‘
دیو بندی علماء کو بریلوی عالم احمد رضا خان کے کنزالایمان نامی ترجمے پر بھی تحفظات ہیں۔ اسی طرح اہل تشیع اور اہل حدیث کے مسلم مذہبی گروپوں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی مختلف تراجم کے حوالے سے آراء مختلف ہیں۔ ہم پہلے ہی دو طرح کی اسلامیات پڑھ رہے ہیں، جس سے ملک میں فرقہ واریت بڑھی ہے۔ اس فیصلے سے بھی بڑھے گی۔ ہمیں قرآن کا مطالعہ خود کرنا چاہیے اور حکومت کو اس میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
بھارت میں قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی نمائش
دہلی کے نیشنل میوزیم میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کے انتہائی نادر نسخوں کی ایک نمائش کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ساتویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی تک کے قرآنی خطاطی کے نمونوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: J. Akhtar
حاشیے میں تفسیر عزیزی
اٹھارہویں صدی میں لکھے گئے قرآن کے اس نسخے کے حاشیے میں تفسیر عزیزی کا متن بھی درج ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خط بہاری میں لکھا گیا سترہویں صدی کا قرآنی نسخہ
خط بہاری میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ 1663ء میں تیار کیا گیا تھا۔ نئی دہلی میں بھارتی نیشنل میوزیم کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر بی آر منی کے مطابق یہ خط صوبہ بہار کی دین ہے اور اسی وجہ سے اس رسم الخط کو یہ نام دیا گیا تھا۔ اپنے منفرد رسم الخط کی وجہ سے عبدالرزاق نامی خطاط کا لکھا ہوا یہ قرآنی نسخہ بہت تاریخی اہمیت کاحامل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
انتہائی نایاب خط ثلث
پندرہویں صدی میں تحریر کردہ یہ قرآنی نسخہ خط ثلث میں ہے۔ اس رسم الخط میں تحریر کردہ قرآنی نسخے بہت ہی نایاب ہیں۔ بھارتی نیشنل میوزیم میں موجود یہ نسخہ نامکمل ہے۔
تصویر: J. Akhtar
کئی رنگوں کے امتزاج سے خطاطی کا تاریخی نمونہ
اس تصویر میں خط نسخ میں لکھا گیا ایک نادر قرآنی نسخہ نظر آ رہا ہے۔ اس نسخے کے ابتدائی صفحات خط کوفی خط میں لکھے گئے ہیں۔ یہ نسخہ سرخ، سیاہ، پیلے، سبز اور سنہرے رنگوں میں خطاطی کے شاندار امتزاج کا نمونہ ہے۔
تصویر: J. Akhtar
خطاطی خط نسخ میں لیکن جلد بندی بہت منفرد
انیسویں صدی میں لکھا گیا یہ نسخہ ماضی میں کپورتھلہ کے مہاراجہ کے خزانے کا حصہ تھا۔ خط نسخ میں تحریر شدہ اس نسخے کی جلد بندی میں خوبصورت بیل بوٹوں کا استعمال کیا گیا ہے جن سے یہ دیکھنے میں اور بھی خوبصورت نظر آتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
سترہویں صدی میں حسن ابدال میں لکھا گیا نسخہ
چھوٹی جسامت والا یہ قرآن انتہائی نایاب نسخوں میں سے ایک ہے، جسے عرف عام میں اس کے مٹھی جتنے سائز کی وجہ سے ’مشتی‘ بھی کہتے ہیں۔ 1602ء میں حسن ابدال (موجودہ پاکستان) میں اس نسخے کی تیاری میں بہت ہی باریک کاغذ استعمال کیا گیا ہے، جس پر تیاری کے دوران طلائی پاؤڈر بھی چھڑکا گیا تھا۔ اس نسخے کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہ شاہجہاں کی مہر بھی ثبت ہے۔
تصویر: J. Akhtar
پہلے سات پارے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ
ساتویں صدی عیسوی کا یہ نسخہ غیر معمولی حد تک قیمتی ہے، جو نئی دہلی کے نیشنل میوزیم میں محفوظ نادر قرآنی نسخوں میں سے قدیم ترین بھی ہے۔ اس کے پہلے صفحے پر درج عبارت کے مطابق اس کے سات پارے خلفائے راشدین میں سے چوتھے خلیفہ علی ابن علی طالب کے تحریر کردہ ہیں۔ یہ نسخہ کبھی گولکنڈہ (دکن) کے حکمران قطب شاہ کے خزانے کا حصہ ہوا کرتا تھا، جسے چمڑے پر خط کوفی میں لکھا گیا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
آٹھویں صدی میں خط کوفی میں عراق میں لکھا گیا قرآنی نسخہ
آٹھویں صدی عیسوی میں یہ قرآنی نسخہ عراق میں تیار کیا گیا تھا۔ اسے بہت قدیم رسم الخط قرار دیے جانے والے خط کوفی میں تحریر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی میں قومی عجائب گھر کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر منی کے مطابق یہ تمام نایاب قرآنی نسخے نیشنل میوزیم کی ملکیت ہیں، جن کی نمائش رواں ماہ کے آخر یعنی 31 مارچ 2018ء تک جاری رہے گی۔
تصویر: J. Akhtar
مغل بادشاہوں شاہجہان اور اورنگ زیب کی مہروں کے ساتھ
یہ تاریخی نسخہ 1396ء میں ریشمی کاغذ اور سمرقندی سِلک پیپر پر خط ریحان میں تحریر کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر مغل بادشاہوں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی شاہی مہریں لگی ہوئی ہیں۔
تصویر: J. Akhtar
لفظ ’اللہ‘ ہر بار سونے کے پانی سے لکھا ہوا
انڈین نیشنل میوزیم کے سابق کیوریٹر اور معروف اسکالر ڈاکٹر نسیم اختر کے مطابق ان قرآنی نسخوں میں سے کئی کے صفحات کو ’سونے کے پانی‘ سے تحریر کیا گیا ہے، جب کہ ایک نسخہ ایسا بھی ہے، جس میں بار بار آنے والا لفظ ’اللہ‘ ہر مرتبہ سونے سے لکھا گیا ہے۔ خط نستعلیق میں یہ قرآنی نسخہ انیسویں صدی میں تحریر کیا گیا تھا۔
تصویر: J. Akhtar
ایک کرتے پر مکمل قرآن اور اللہ کے ننانوے نام بھی
اٹھارہویں صدی میں تیار کردہ اس کرتے پر پورا قرآن لکھا گیا ہے، جو ایک غیر معمولی اثاثہ ہے۔ کرتے کے دائیں بازو پر اللہ کے صفاتی نام درج ہیں۔ اس قرآن کی بہت ہی باریک کتابت خط نسخ کی گئی ہے اور اس کرتے پر اللہ کے ننانوے نام خط ریحان میں تحریر کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا بہت ہی منفرد اور واحدکرتا ہے۔
تصویر: J. Akhtar
11 تصاویر1 | 11
چند مبصرین کے خیال میں پی ٹی آئی حکومت کی یہ پالیسی جنرل ضیاالحق کی 'اسلامائزیشن کی پالیسی‘ کا تسلسل ہے، جس سے ملک کو نقصان ہو گا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے مصنف فاروق طارق کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ سماجی اور تعلیمی مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا، ''جو طلبہ مذہب کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، وہ اسلامیات پڑھیں۔ انہیں کس نے روکا ہے۔ لیکن فزکس، ریاضی، سائنس یا سوشل سائنسز کے طلبہ کو یہ پڑھانے کی منطق کیا ہے؟ یہ صرف ضیاالحق کی پالیسی کا تسلسل ہے، جسے کو مختلف مذہبی حلقے استعمال کریں گے۔‘‘
پاکستان میں کچھ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ترجمے کے ساتھ ساتھ بحث بھی ہو اور علمی گفتگو کی جائے، تو اس سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے۔ لاہور کی ایف سی کالج یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر عمار علی جان نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے ہی ایسے اساتذہ کو نکالا جا رہا ہے، جو علمی گفتگو کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور دلائل کے ذریعے موجودہ معاشرتی مسائل کے حل کی بات کرتے ہیں۔ تو اس فیصلے سے یہ نہیں لگتا کہ اس کا مقصد مذہبی حوالے سے بھی علمی اور تحقیقی گفتگو کا فروغ ہے۔‘‘