پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کا بیٹا اغوا
26 اگست 2011شہباز تاثیر کو دن دہاڑے صوبائی دارالحکومت کے مصروف ترین علاقے کی ایک بڑی شاہراہ سے اس وقت اغوا کیا گیا، جب وہ گلبرگ کے علاقے حسین چوک کے قریب اپنے دفتر جا رہے تھے۔ انہیں موٹر سائیکل اور گاڑی میں سوار چار نا معلوم مسلح افراد نے گن پوائنٹ پر روکا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق اغوا کار اپنی ایک رائفل فردوس مارکیٹ چوک میں پھینک کر ڈیفنس کے علاقے کی طرف چلے گئے ۔ یاد رہے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو رواں سال جنوری میں ان کے ایک سیکورٹی گارڈ نے قتل کر دیا تھا اور ان کے قتل کا مقدمہ آج کل عدالت میں زیر سماعت ہے۔
ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئےپنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے بتایا کہ اس واقعے کے فوری بعد سے لاہور سے باہر جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر لی گئی ہے۔ مشکوک گاڑیوں کو چیک کیا جا رہا ہے۔ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے وابستہ اہلکاروں پر مشتمل جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے۔ ان کے بقول شہباز تاثیر کی رہائی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس واردات کا تعلق کہیں سلمان تاثیر کے قتل کے حوالے سے ہونے والی عدالتی کارروائی سے تو نہیں ہے۔
ابھی تک کسی گروہ نے شہباز تاثیر کے اغوا کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے اور اغوا کرنے والوں کی طرف سے کوئی مطالبہ بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم تحقیقاتی ٹیموں نے شہباز تاثیر کی گاڑی سے ملزمان کی انگلیوں کے نشانات حاصل کر لئے ہیں۔ متعلقہ علاقے سے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج بھی حاصل کر لی گئی ہے۔ شہباز تاثیر کی سیکورٹی پر مامور وہ پولیس اہلکار، جو جائے واردات پر موجود نہیں تھے، انہیں بھی شامل تفتیش کر لیا گیا ہے۔
انگریزی اخبار دی نیشن کے ایڈیٹر سلیم بخاری نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ شہباز تاثیر کے اغوا نے عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا ہے۔ ان کے بقول تاثیر فیملی کے لیے سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ دوسرا بڑا صدمہ ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسے دور میں ہو رہا ہے، جب سلمان تاثیر کی پارٹی وفاق میں بر سر اقتدار ہے اور ان کا ایک دوست پاکستان کی صدارت کے منصب پر فائز ہے۔ سلیم بخاری کے مطابق سرکاری سکیورٹی رکھنے والا با اثر تاثیر خاندان بھی اگر محفوظ نہیں ہے، تو پھر پنجاب میں عام آدمی کی سیکورٹی کی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سلیم بخاری نے بتایا کہ شہباز تاثیر کے اغوا کا سلمان تاثیر کے قتل کی عدالتی کارروائی سے تعلق خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ پنجاب کے وزیر قانون کہہ چکے ہیں کہ شہباز تاثیر کو اغوا کرنے والوں کا تعلق وزیرستان کی دہشت گرد تنظیموں سے ہو سکتا ہے۔
ادھر پنجاب کے گورنر لطیف کھوسہ نے جمعے کی شام گورنر ہاوس میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز تاثیر کے اغوا کی شدید مذمت کی ہے ۔ انہوں نے پنجاب حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے شہباز تاثیر کو فوری طور پر برآمد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ گورنر لطیف کھوسہ کے مطابق شہباز شریف کراچی جا کر امن کی باتیں کر رہے ہیں لیکن خود ان سے ان کا اپنا صوبہ سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند روز پہلے ایک امریکی شہری کو بھی لاہور سے اغوا کیا جا چکا ہے اور اسے بھی ابھی تک برآمد نہیں کروایا جا سکا ہے۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: عاطف توقیر