1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پنجاب یونیورسٹی میں تین روزہ کتاب میلہ

8 مارچ 2024

پاکستان کی تاریخی دانش گاہ جامعہ پنجاب میں تین روزہ کتاب میلہ جاری ہے۔کتاب میلے کے شرکاء کے خیال میں ملک میں فروغ کتب کے لیے صرف کتابوں کے میلوں کا انعقاد کافی نہیں بلکہ حکومتی اقدامات بھی درکار ہیں۔

Pakistan Lahore | Buchmesse von der Universität Punjab
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

اس کتاب میلے میں قومی اور بین الاقوامی سطح کے پبلشرز نے ایک سو چالیس سے زائد سٹال لگا رکھے ہیں۔ جن پر تیس سے ساٹھ فی صد ڈسکاونٹ پر کتابیں فروخت کی جا رہی ہیں۔ کتاب میلے میں موجود کتابوں میں ادبی، تحقیقی، مذہبی، نصابی اور تاریخی کتابوں سمیت مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتب فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں۔ اس کتاب میلے میں ایک اسٹال پرانی اور نایاب کتابوں کا بھی لگایا گیا ہے۔ ایک اور اسٹال پر طلبہ کو دیگر ملکوں میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع کے بارے میں رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔ کتاب میلے میں ایک فوٹو بوتھ بھی بنایا گیا ہے جبکہ ایک فوڈ کورٹ بھی یہاں موجود ہے۔ یہ کتاب میلہ 9 مارچ تک جاری رہے گا۔

 

علم و عرفان پبلشرز کے اسٹال پر موجود ایک سیلز مین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سوال کا حتمی جواب دینا مشکل ہے کہ لوگ کس طرح کی کتابیں زیادہ پسند کر رہے ہیں لیکن  ان کے بقول ان کے اسٹال سے زیادہ تر ناول اور معروف ادیبوں کی مقبول عام کتابیں زیادہ خریدیں جا رہی ہیں۔ انگریزیکتابوں کے اسٹال پر موجود ایک دوسرے سیلزمین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کہ ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ طلباء کے مقابلے میں طالبات کتابیں زیادہ خرید رہیں ہیں۔'' اچھی بات یہ بھی ہے کہ لاہور کی دوسری یونیورسٹیوں اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ اس کتاب میلے میں آ رہے ہیں۔‘‘

اس میلے میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

 اگرچہ اس کتاب میلے کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کا سب سے بڑا کتاب میلہ ہے لیکن اس دعوے سے قطع نظر یہ بات حقیقت ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس کتاب میلے میں شریک ہے۔ اورینٹل کالج  کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ رحمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لاہورایکسپو سینٹر، کراچی اور پنجاب یونیورسٹی میں ہونے والے حالیہ کتاب میلوں میں لوگوں کی بڑی تعداد کی شرکت سے اس تاثر کی نفی ہوئی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں کتابوں کا دور ختم ہو گیا ہے۔ '' میری خواہش تو یہ ہے کہ ہر رکن اسمبلی اپنے اپنے حلقے میں لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنائے، شہروں میں لوگ اپنے اپنے علاقوں میں بک بنیک قائم کریں۔‘‘

حرا نامی ایک طالبہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت غیر ضروری معاملات سے پیسے بچا کر شہریوں کے لیے کتاب کارڈ جاری کرے جس کے تحت شہری ایک مخصوص رقم تک مفت کتابیں حاصل کر سکیں۔ ہیلی کالج سے تعلق رکھنے والے نبیل نامی طالب علم نے کہا کہ اچھی اور نئی کتابوں پر زیادہ ڈسکاونٹ یقینی بنایا جانا چاہیے۔ اور تمام تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کے لیے کتب کی خریداری سے پہلے طلبہ و طالبات سے بھی رائے لی جانی چاہئیے۔

ایک ریٹائرڈ استاد ڈاکٹر نعمان نے بتایا کہ صرف کتابوں کی تعداد پر مطمئن ہو جانا کافی نہیں بلکہ سوچنا اس بارے میں ہو گا کہ اچھی اور معیاری کتابیں ملک میں کتنی چھپ رہی ہیں، اچھے لکھنے والے کتنے ہیں اور کس حال میں ہیں۔

کتابوں میں نوجوانوں کی دلچسپی دیکھنے میں آئیتصویر: Tanvir Shahzad/DW

انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے میں پبلشرز سے عام کتاب میلوں کی نسبت صرف ایک تہائی فیس لی گئی ہے اس لیے یہاں کتابوں پر زیادہ ڈسکاونٹ دینا بھی ان کے لیے ممکن ہوگیا ہے۔  ایک روز پہلے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے اس کتاب میلے کا افتتاح کیا تھا اس موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ کتب بینی کو فروغ دینے اور معاشرے میں مثبت تبدیلیاں لانے کے لیے کتاب میلے کا انعقاد اہم ہے۔ اس موقعے پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر خالد محمود کا کہنا تھا کہ کتاب میلہ یونیورسٹی کی اہم روایت ہے لیکن بدقسمتی سے پچھلے کئی سا لوں سے کتاب میلے کا انعقاد ممکن نہیں ہو پا رہا تھا اس سال نو برسوں بعد یہ کتاب میلہ ہوا ہے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ موجودہ دور نالج اکانومی کا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ترقی یافتہ قومیں کتاب سے جڑی ہوئی ہیں اور پاکستان میں بھی قوم میں تقسیم روکنے کے لیے کتاب کلچر کو پروان چڑھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 ڈی ڈبلیو گوز تو کیمپس نامی پروگرام کے سلسلے میں جرمنی سے آئے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ایک وفد کے ارکان نے بھی کتاب میلے کا دورہ کیا۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے کتاب میلے جیسی سرگرمیوں کے انعقاد کو سراہا اور کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کا کتاب کی طرف مائل ہونا بہت مثبت پیش رفت ہے۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں