پنجشیر میں طالبان کی پیشقدمی اور خانہ جنگی کا خدشہ
6 ستمبر 2021افغانستان کے صوبے پنجشیر پر کنٹرول کے لیے طالبان جنگجوؤں اور مقامی ملیشیا کے درمیان لڑائی اب بھی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق پانچ ستمبر اتوار کے روز طالبان وادی میں کافی اندر تک داخل ہونے میں کامیاب ہوتے دکھائی دیے۔
افغانستان کا یہی ایک صوبہ ہے جہاں پر اب تک طالبان کاکنٹرول نہیں ہوسکا ہے۔ سابق جنگی سردار احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود پنجشیر کے مقامی رہنما ہیں، جو طالبان سے نبرد آزما قومی مزاحمتی محاذ کی قیادت کر رہے۔ انہوں نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس علاقے میں گزشتہ چند روز سے شدید لڑائی ہورہی ہے۔ جس میں اب تک سینکڑوں افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں اور سینکڑوں مقامی خاندان بے گھر ہو چکے ہیں۔
تازہ صورت حال کیا ہے؟
اتوار کے روز طالبان کے ایک اہلکار بلال کرمانی نے اطلاع دی تھی کہ پنجشیر کے علاقے میں طالبان جنگجوؤں اور مقامی ملیشیا کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔ ابھی اس لڑائی کی تفصیلات واضح نہیں ہیں تاہم اٹلی کی ایک امدادی ایجنسی نے اطلاع دی تھی کہ طالبان نے وادی کے ایک دیہی علاقے اندراب پر قبضہ کر لیا ہے۔
طالبان نے بھی اتوارکے روز اعلان کیا تھا کہ وہ وادی پنجشیر کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور ان کے جنگجو اب صوبے کے دارالحکومت میں پہنچ چکے ہیں۔
اتوار کی دیر رات کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس لڑائی میں اب تک مزاحمتی گروپ کے دو اہم کمانڈر ہلاک ہو گئے ہیں۔ پنجشیر کے مزاحمتی گروپ نے ایک بیان کے مطابق ہلاک ہونے والے ایک کمانڈر عبدالودود، احمد مسعود کے قریبی رشتے دار ہیں۔
دوسرے ہلاک ہونے والے کمانڈر فہیم دشتی بتائے جا رہے ہیں، جو احمد مسعود کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ احمد مسعود نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک پوسٹ مین خود اس کی تصدیق کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق ابتدا میں اس لڑائی میں طالبان کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا جس کے بعد سے طالبان بھاری ہتھیاروں کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران احمد مسعود نے مذہبی رہنماؤں کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے جس میں لڑائی کے بجائے بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی بات کہی گئی ہے۔
انہوں نے اس کا اعلان فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں کیا ہے اور کہا، ''این آر ایف موجودہ مسائل کو حل کرنے، لڑائی کو فوری طور پر ختم کرنے اور اصولی طور پر مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا، ''دیرپا امن تک پہنچنے کے لیے، این آر ایف اس شرط پر لڑائی بند کرنے کے لیے تیار ہے کہ طالبان پنجشیر اور اندراب پر اپنے حملے اور فوجی نقل و حرکت بند کر دیں۔''
خانہ جنگی کا خدشہ
اس دوران امریکا کے ایک اعلی فوجی کمانڈر مارک ملی نے افغانستان میں خانہ جنگی کے خدشات کے لیے متنبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ طالبان اپنی طاقت کو مزید مستحکم کرنے کی جد و جہد کر رہے ہیں اس لیے، ''کم از کم ایک وسیع خانہ جنگی کا اچھا خاصا خدشہ ہے۔''
فاکس نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے جنرل ملی نے کہا، ''اس کی وجہ سے ایسی صورت حال پیدا ہو گی جس سے القاعدہ کے دوبارہ پنپنے اور داعش کے مزید بڑھنے کا امکان ہے۔''
اس دوران ایک برطانوی فوجی افسر سر نک کارٹر نے کہا ہے کہ افغانستان سے انخلا کے معاملے میں مغربی طاقتوں کے تمام اندازے غلط تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی اندازے کے مطابق اس بارے میں سبھی کی قیاس آرائیاں درست ثابت نہیں ہوئیں اور یہاں تک کی طالبان کو بھی اپنی اتنی تیزی سے کامیابی کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔
اقوام متحدہ کی طالبان تک رسائی
اقوام متحدہ میں ایمرجنسی ریلیف کے رابطہ کار مارٹن گریفتھ نے اتوار کے روز طالبان رہنما ملّا برادر سے فون پر بات چیت کی اور ان سے اقوام متحدہ کے کارکنان کے تحفظ کو یقینی بنانے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں لاکھوں افراد کو فوری امداد کی ضرورت ہے اور یہ بلا امتیاز سبھی ضرورت مندوں تک پہنچنی چاہیے۔
طالبان کے ایک ترجمان سہیل شاہین نے امداد کے لیے اقوام متحدہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایجنسی کے ساتھ تمام طرح کی مدد اور تعاون کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے افغانستان کے لیے اپنی امدادی پروازوں کا آغاز گزشتہ ہفتے ہی کر دیا تھا۔
ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)