پندرہ سال سے حکمران میرکل نے اب تک کیا کھویا، کیا پایا
2 جنوری 2020
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کا دور اقتدار جلد ختم ہونے والا ہے۔ انہوں نے اپنے اس طویل اقتدار میں کیا کچھ حاصل کیا؟ وہ مزید کیا منصوبے رکھتی ہیں اور ان کا سیاسی ورثہ کیا ہو گا؟
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل سن دو ہزار اکیس تک اقتدار میں رہیں گی۔ وہ کہہ چکی ہیں کہ وہ مزید ایک بار چانسلر شپ کی متمنی نہیں ہیں جبکہ وہ اپنی پارٹی کی قیادت سے بھی علیحدگی اختیار کر چکی ہیں۔
کئی مرتبہ ایسی پیش گوئیاں کی جا چکی ہیں کہ میرکل اپنی موجودہ مدت اقتدار مکمل ہونے سے قبل ہی چانسلر شپ کے عہدے سے مستعفی ہو سکتی ہیں۔ بالخصوص ایک ایسے وقت پر جب ان کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل ان کی بڑی اتحادی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے مابین ایک مرتبہ پھر اختلافات پیدا ہو جائیں۔
جرمنی میں انگیلا میرکل کی چانسلرشپ کا یہ اب پندرہواں سال ہے۔ اگر وہ اس مرتبہ بھی اپنی مدت اقتدار مکمل کرتی ہیں، تو یوں وہ سولہ برس تک جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل کر لیں گی۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی اس عہدے کو بہ احسن طریقے سے نبھائیں۔ اس تناظر میں انہیں عوامی حمایت بھی حاصل ہے۔ تاہم کئی حلقے جرمنی کی موجودہ وسیع تر مخلوط حکومت کے کام سے خوش نہیں ہیں۔
ڈرامائی تبدیلیاں
انگیلا میرکل پہلی مرتبہ سن دو ہزار پانچ میں جرمن چانسلر منتخب کی گئی تھیں۔ تب سے اب تک دنیا میں کئی ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ اس دوران جرمن سیاست میں بھی کئی اہم تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ نہ صرف وفاقی پارلیمان بلکہ تمام سولہ وفاقی صوبوں کی اسمبلیوں میں بھی نمائندگی حاصل کر چکی ہے۔ متعدد مشرقی صوبوں میں تو وہ دوسری بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے۔
میرکل کے دور اقتدار میں ہی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے جبکہ برطانیہ کی یورپی یونین سے علحیدگی کا عمل بھی انہی کے سیاسی کیریئر میں شروع ہوا۔ سن دو ہزار سترہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو پر سوالات اٹھائے گئے، تو میرکل نے کہا تھا کہ 'وہ دور ختم ہو چکا ہے جب ہم دوسروں پر مکمل طور پر انحصار کر سکتے تھے‘۔
انگیلا میرکل کے سوانح نگار رالف بولمان کے مطابق ٹرمپ کے اقتدار میں آنے اور بریگزٹ کے عمل کے شروع ہونے کے بعد میرکل سمجھتی ہیں کہ 'مغربی جمہوری نظام میں انتہائی سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے‘۔ بولمان کہتے ہیں کہ میرکل کا مقصد ہے کہ وہ اپنے اقتدار کے آخری کچھ مہینوں کے دوران جرمنی، یورپ اور دنیا کو اس بحران سے بچا سکیں۔
تاہم میرکل کو کئی محاذوں کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر یورپ میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے اختلافات اہم ہیں۔ بند کمروں میں میرکل کے اپنے حمایتی ہی انہیں یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ ماکروں کی قیادت کی خواہش کو تسلیم کر لیں۔
مغربی دنیا کی محافظ یا نفرت کا شکار شخصیت
انگیلا میرکل کبھی بھی ایک عظیم دور اندیش سیاست دان نہیں رہیں۔ اس کے باوجود کئی اہم تبدیلیوں کا سہرا ان کے سر جاتا ہے۔ بالخصوص ایک خاتون سیاستدان کے طور پر ان کی کامیابیاں بے مثال ہیں۔ وہ ایک ایسی سیاسی پارٹی کی سربراہ بنیں، جسے روایتی طور پر پدرشاہی روایات کی حامل سیاسی جماعت کہا جاتا تھا۔
یہ الگ بات ہے کہ میرکل نے خود کو کبھی فیمینسٹ نہیں کہا۔ جہاں تک خواتین کو سیاست اور معاشرے میں زیادہ مواقع فراہم کرنے کی بات ہے، تو اس حوالے سے میرکل کا ریکارڈ متوازن ہے۔ لیکن ان کی قیادت میں جرمن پارلیمان میں خواتین کی شرح کم ہوئی ہے۔ ان کے ڈیڑھ عشرے پر محیط دور اقتدار میں وفاقی پارلیمان یا بنڈس ٹاگ میں خواتین ارکان کی تعداد بیالیس فیصد سے کم ہو کر اکتیس فیصد تک آ گئی ہے۔ دوسری طرف میرکل نے کئی خاتون سیاستدانوں کی کھل کر حمایت بھی کی ہے۔
انگیلا میرکل کے دور اقتدار کے کچھ انتہائی اہم لمحات
انگیلا میرکل کے قدامت پسند سیاسی اتحاد نے چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی جرمن چانسلر کے عہدے پر فائز ہونے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M.Schreiber
ہیلموٹ کوہل کی جانشین
انگیلا میرکل ہیلموٹ کوہل کے بعد پہلی مرتبہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی نگران سربراہ بنی تھیں۔ انہیں اس سیاسی پارٹی کی قیادت کو اب تقریبا سترہ برس ہو چکے ہیں جبکہ انہوں نے سن دو ہزار پانچ میں پہلی مرتبہ جرمن چانسلر کا عہدہ سنبھالا تھا۔
تصویر: imago/Kolvenbach
پہلا حلف
’میں جرمنی کی خدمت کرنا چاہتی ہوں‘، بائیس نومبر 2005 کو انگیلا میرکل نے یہ کہتے ہوئے پہلی مرتبہ چانسلر شپ کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ انہیں جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر بننے کا اعزاز تو حاصل ہوا ہی تھا لیکن ساتھ ہی وہ اس عہدے پر فائز ہونے والی ایسی پہلی شخصیت بھی بنیں، جس کا تعلق سابقہ مشرقی جرمنی سے تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Bergmann
میرکل اور دلائی لامہ کی ملاقات
میرکل نے بطور چانسلر اپنے دور کا آغاز انتہائی عجزوانکساری سے کیا تاہم جلد ہی انہوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو لوہا منوا لیا۔ 2007ء میں میرکل نے دلائی لامہ سے ملاقات کی، جس سے بیجنگ حکومت ناخوش ہوئی اور ساتھ ہی جرمن اور چینی تعلقات میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی۔ تاہم میرکل انسانی حقوق کو مقدم رکھتے ہوئے دیگر تمام تحفظات کو نظر انداز کرنا چاہتی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schreiber
پوٹن کے کتے سے خوفزدہ کون؟
میرکل نہ صرف مضبوط اعصاب کی مالک ہیں بلکہ وہ منطق کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتیں۔ تاہم روسی صدر پوٹن جرمن چانسلر کا امتحان لینا چاہتے تھے۔ میرکل کتوں سے خوفزدہ ہوتی ہیں، یہ بات پوٹن کو معلوم ہو گئی۔ سن 2007 میں جب میرکل روس کے دورے پر سوچی پہنچیں تو پوٹن نے اپنے کتے کونی کو بلاروک ٹوک میرکل کے قریب جانے دیا۔ تاہم میرکل نے میڈیا کے موجودگی میں مضبوط اعصاب دکھائے اور خوف کا کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Astakhov
پرسکون میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکل مسائل کے باوجود بھی پرسکون دکھائی دیتی ہیں۔ سن 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران پیدا ہوا تو میرکل نے یورو کو مضبوط بنانے کی خاطر بہت زیادہ محنت کی۔ اس بحران میں ان کی حکمت عملی نے میرکل کو’بحرانوں کو حل کرنے والی شخصیت‘ بنا ڈالا۔ میرکل کی کوششوں کی وجہ سے ہی اس بحران میں جرمنی کی معیشت زیادہ متاثر نہیں ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/epa/H. Villalobos
دوسری مرتبہ چانسلر شپ
ستائیس ستمبر 2009ء کے انتخابات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین نے ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل کر لی۔ اس مرتبہ میرکل نے فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے ساتھ اتحاد بنایا اور دوسری مرتبہ چانسلر کے عہدے پر منتخب کی گئیں۔
تصویر: Getty Images/A. Rentz
جوہری توانائی کا پروگرام اور مخالفت
انگیلا میرکل کوالیفائڈ ماہر طبیعیات ہیں، غالبا اسی لیے وہ حتمی نتائج کے بارے میں زیادہ سوچتی ہیں۔ تاہم انہوں نے فوکو شیما کے جوہری حادثے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جاپان میں ہوئے اس خطرناک حادثے کے بعد جرمنی میں جوہری توانائی کے حامی فوری طور پر ایٹمی توانائی کے مخالف بن گئے۔ یوں میرکل کو بھی جرمن جوہری ری ایکٹرز کو بند کرنے کا منصوبہ پیش کرنا پڑا۔
تصویر: Getty Images/G. Bergmann
میرکل کی ازدواجی زندگی
ان کو کون پہچان سکتا ہے؟ یہ انگیلا میرکل کے شوہر یوآخم زاؤر ہیں، جو برلن کی ہیمبولٹ یونیورسٹی میں طبیعیات اور تھیوریٹیکل کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔ ان دونوں کی شادی 1998ء میں ہوئی تھی۔ عوامی سطح پر کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ یوآخم زاؤر دراصل جرمن چانسلر کے شوہر ہیں۔
تصویر: picture alliance/Infophoto
این ایس اے: میرکل کے فون کی بھی نگرانی
امریکی خفیہ ایجسنی این ایس اے کی طرف سے جرمن سیاستدانون کے ٹیلی فونز کی نگرانی کا اسکینڈل سامنا آیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ امریکا نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے فون بھی ریکارڈ کیے۔ اس اسکینڈل پر جرمنی اور امریکا کے دوستانہ تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ لیکن میرکل نے اس نازک وقت میں بھی انتہائی سمجھداری سے اپنے تحفظات واشنگٹن تک پہنچائے۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
تیسری مرتبہ چانسلر کا عہدہ
انگیلا میرکل کے قدامت پسند اتحاد نے سن دو ہزار تیرہ کے وفاقی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کی اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی۔ ان انتخابات میں ان کی سابقہ اتحادی فری ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست ہوئی اور وہ پارلیمان تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
یونان کا مالیاتی بحران
میرکل دنیا بھر میں انتہائی مقبول ہیں لیکن یونان میں صورتحال کچھ مختلف ہے۔ سن 2014 میں جب یونان کا مالیاتی بحران شدید تر ہو چکا تھا تو جرمنی اور یونان کی ’پرانی دشمنی‘ کی جھلک بھی دیکھی گئی۔ لیکن میرکل اس وقت بھی اپنی ایمانداری اورصاف گوئی سے پیچھے نہ ہٹیں۔ بچتی کٹوتیوں اور مالیاتی اصلاحات کے مطالبات پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے یونانی عوام جرمنی سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/epa/S. Pantzartzi
جذباتی لمحہ
انگیلا میرکل زیادہ تر اپنے جذبات آشکار نہیں ہونے دیتی ہیں۔ تاہم دیگر جرمنوں کی طرح انگیلا میرکل بھی فٹ بال کی دلدادہ ہیں۔ جب جرمن قومی فٹ بال ٹیم نے برازیل منعقدہ عالمی کپ 2014ء کے فائنل میں کامیابی حاصل کی تو میرکل اپنے جذبات کو قابو میں نہ رکھ سکیں۔ جرمن صدر بھی یہ میچ دیکھنے کی خاطر میرکل کے ساتھ ریو ڈی جینرو گئے تھے۔
تصویر: imago/Action Pictures
مہاجرین کا بحران ایک نیا چیلنج
حالیہ عرصے میں مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کو مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ میرکل کہتی ہیں کہ جرمنی اس بحران سے نمٹ سکتا ہے۔ لیکن جرمن عوام اس مخمصے میں ہیں کہ آیا کیا جرمنی واقعی طور پر اس بحران پر قابو پا سکتا ہے۔ ابھی اس کے نتائج آنا باقی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
پیرس حملے اور یورپی سکیورٹی
تیرہ نومر کو پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملوں کی وجہ سے فرانس بھر میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔ انگیلا میرکل نے اپنے ہمسایہ ملک کو یقین دلایا ہے کہ برلن حکومت ہر ممکن تعاون کرے گی۔ کوئی شک نہیں کہ پیرس حملوں کے بعد کی صورتحال میرکل کے دس سالہ دور اقتدار میں انہیں پیش آنے والے چیلنجوں میں سب سے بڑا چیلنج ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka
چوتھی مرتبہ چانسلر
انگیلا میرکل نے بیس نومبر سن دو ہزار سولہ کو اعلان کیا کہ وہ چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کے لیے تیار ہیں۔ انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مکمل حمایت حاصل رہی اور ان کا قدامت پسند اتحاد چوبیس ستمبر کے وفاقی انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی طاقت بن کر ابھرا۔ یوں میرکل کے چوتھی مرتبہ بھی چانسلر بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
15 تصاویر1 | 15
بولمان کا کہنا ہے کہ میرکل سیاسی حالات کے مطابق ایک باعمل خاتون ہیں۔ بطور ماہر طبیعیات وہ جوہری توانائی پر یقین رکھتی ہیں لیکن انہوں نے سنگین جوہری حادثات کے بعد جرمنی میں جوہری بجلی گھروں کو بند کرنے کی حمایت کی۔
میرکل اگرچہ ہم جنس پسندی کے حق میں نہیں لیکن ان کی حکومت نے جرمنی میں ہم جنس پسند افراد کی آپس میں شادیوں کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ میرکل کے دور میں ہی جرمنی میں لازمی فوجی سروس ختم کر دی گئی۔
میرکل کے دور اقتدار کا سب سے زیادہ متنازعہ فیصلہ سن دو ہزار پندرہ میں مہاجرین کے لیے ملکی سرحدوں کو کھول دینا بنا۔ کچھ مہاجرین اور تارکین وطن افراد کی طرف سے جرائم کی وجہ سے جرمنی میں اجانب دشمنی بھی دیکھی گئی اور انہی جذبات کی وجہ سے مہاجرت مخالف سیاسی جماعت 'متبادل برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
سن دو ہزار پندرہ میں ٹائم میگزین نے مہاجر دوست پالیسی کی وجہ سے میرکل کو سال کی اہم ترین شخصیت قرار دیا تو جرمنی میں اس وقت دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے میرکل کے خلاف ایک منظم مہم شروع کر دی تھی۔
میرکل کا سیاسی ورثہ
جرمنی میں ان تبدیلیوں کے باوجود میرکل اب بھی ایک مقبول ترین شخصیت ہیں۔ میرکل کے سوانح نگار بولمان کو یقین ہے کہ میرکل خود کو ایک ایسی کامیاب سیاستدان کے طور پر منوانا چاہتی ہیں، جس نے جرمنی کو کئی بحرانوں سے نکالا۔ ان میں مالیاتی بحران، یورو کرنسی کا بحران، یوکرائن کا بحران اور مہاجرین کا بحران سبھی شامل ہیں۔
میرکل کے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا کہ وہ نئی پالیسیاں ترتیب دے سکیں۔ وہ آہستہ آہستہ اور بالخصوص ملکی سیاسی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو رہی ہیں۔ وہ ان ذمہ داریوں کو اپنی ممکنہ سیاسی جانشین آنےگرَیٹ کرامپ کارین باؤر کے حوالے کر رہی ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا آنےگرَیٹ کرامپ کارین باؤر مستقبل میں حکومتی سربراہ کے طور پر میرکل کی جگہ لے سکیں گی۔ میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو میں کئی حلقے کھلے عام کرامپ کارین باؤر کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ایک بات تاہم واضح ہے کہ میرکل کے بعد جرمنی کو کسی ایسی قد آور سیاسی شخصیت اور لیڈر کی ضرورت ہو گی، جو میرکل کا حقیقی نعم البدل ثابت ہو سکے۔
ع ب / م م / کرسٹوف ہاسل باخ، میشیلا کوفنر، میکسملین کوشائک، کے الیگزینڈر شولز
صنف نازک کے ہاتھوں میں کن ممالک کی باگ ڈور ہے
دنیا میں کُل ایک سو پچانوے ممالک اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں ہیں۔ ان میں اکثریت پر مرد حکومتوں کے سربراہ ہیں۔ خواتین سربراہانِ حکومت و مملکت کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
سانا مارین
چونتیس سالہ سانا مارین کو حال ہی میں فن لینڈ کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی نے اپنا لیڈر بھی منتخب کیا ہے۔ انہوں نے دس دسمبر بروز منگل کو منصب وزارتِ عظمیٰ سنبھال کر دنیا کی کم عمر ترین وزیراعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ وزیراعظم بننے کے دو ہی روز بعد انہوں نے یورپی یونین کی سمٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔
تصویر: Reuters/Lehtikuva/V. Moilanen
جیسنڈا آرڈرن
اکتوبر سن 2017 سے جیسنڈا آرڈرن نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے سینتیس برس کی عمر میں نیوزی لینڈ کے چالیسویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ دوسری خاتون وزیراعظم ہیں جنہیں اس منصب پر رہتے ہوئے ماں بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اُن سے پہلے پاکستان کی مقتول وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے ہاں اس منصب پر فائز رہتے ہوئے بچے کی ولادت ہوئی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Keith
جینین انیز
لاطینی امریکی ملک بولیویا کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صدر ایوو موریلس کے رواں برس نومبر میں مستعفی ہونے کے بعد ملکی صدارت باون سالہ خاتون رہنما جینین انیز نے سنھبال رکھی ہے۔ وہ اس سے پہلے سینیٹ کی نائب صدر تھیں۔ وہ دائیں بازو کی قدامت پسند رہنما ہیں۔ انہوں نے جلد از جلد پارلیمانی انتخابات کرانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Karita
سوفی وِلمز
بیلجیم کی سابق وزیر بجٹ سوفی ولمز نے رواں برس ستائیس اکتوبر کو وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ وہ اپنے ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم ہیں۔ چوالیس سالہ سیاستدان فرانسیسی بولنے والی سیاسی جماعت لبرل سنٹرسٹ ایم آر پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Belga/V. Lefour
زُوزانا چاپُوٹووا
سلوواکیہ کی عوام نے مارچ سن 2019 کو زُوزانا چاپُوٹووا کو اپنے ملک کا صدر منتخب کیا تھا۔ وہ اس ملک کی صدارت سنبھالنے والی پہلی خاتون ہیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد انہوں نے پندرہ جون کو صدر کا منصب سنبھالا۔ وہ پینتالیس برس کی عمر میں صدر بنی، اس طرح سلوواکیہ کی تاریخ کی کم عمر ترین صدر ہیں۔ انہوں نے صدارتی الیکشن میں کامیابی ماحول دوستی اور انسداد بدعنوانی کی بنیاد پر حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Gluck
انگیلا میرکل
جرمنی میں سن 2005 سے چانسلر کے منصب پر انگیلا میرکل فائز ہیں۔ اکاون برس کی عمر میں وہ جرمنی کی پہلی خاتون قائدِ حکومت بنی تھیں۔ وہ اس وقت اپنی چوتھی اور آخری چانسلر شپ کی مدت مکمل کر رہی ہیں۔ میرکل کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتی ہیں۔ ان کی حکومتی مدت سن 2021 میں مکمل ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Hoslet
ساحلے ورک زوڈے
افریقی ملک ایتھوپیا کی پارلیمنٹ نے انہتر سالہ سابقہ سفارت کار ساحلے ورک زوڈے کو ملک کا پانچواں صدرمنتخب کیا۔ ایتھوپیا میں صدر کا منصب دستوری نوعیت کا ہے اور انتہائی محدود اختیارات کا حامل ہے۔ وہ ایتھوپیا کی صدر بننے والی پہلی خاتون ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہ چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/C. Allegri
سائی انگ وین
جمہوریہ چین یا تائیوان کی پہلی خاتون صدر سائی انگ وین نے بیس مئی سن 2016 میں منصب صدارت کا حلف اٹھایا تھا۔ وہ سن 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہیں۔ وہ تائیوان کی حکمران ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔ انہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے حوالے سے سخت پالیسی اپنا رکھی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
ایرنا سولبرگ
ناروے کی وزارت عظمیٰ بھی ایک خاتون ایرنا سولبرگ نے سنبھال رکھی ہے۔ وہ اس منصب پر سولہ اکتوبر سن 2013 کو فائز ہوئی تھیں۔ سابق برطانوی خاتون وزیراعظم مارگریٹ تھیچر سے وہ متاثر ہیں۔ تھیچر کو ’آئرن لیڈی‘ کی عرفیت حاصل تھی اور اس مناسبت سے ناروے کی وزیراعظم کو ’آئرن ایرنا‘ کہا جاتا ہے۔ اٹھاون سالہ سیاستدان ناروے کی دوسری خاتون وزیراعظم ہیں۔ وہ ناروے کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ بھی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Wivestad Groett
سارا کونگونگیلا اما ڈیلا
باون سالہ سارا کونگونگیلا اماڈیلا نمیبیا کی چوتھی وزیراعظم ہیں۔ وہ اس منصب پر سن 2015 سے فائز ہیں۔ وہ ٹین ایجر کے دور میں حکومتی جبر کی وجہ سے ہمسایہ ملک سیرالیون جلا وطن ہو گئی تھیں۔ انہوں نے ملک لوٹنے سے قبل امریکا سے اکنامکس میں گریجوایشن کی تھی۔ وہ خواتین کے حقوق کی پرزور حامی ہیں اور وہ پہلی خاتون ہیں جو نمیبیا کی سربراہ حکومت ہیں۔
تصویر: Imago/X. Afrika
شیخ حسینہ
بنگلہ دیش کی دسویں وزیراعظم اور اس منصب پر سب سے لمبے عرصے تک فائز رہنے والی خاتون بہتر سالہ شیخ حسینہ ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے بانی رہنما شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہیں۔ فوربز میگزین انہیں مسلسل سن 2016 لے سے 2018 تک دنیا کی ایک سو با اثر خواتین میں شمار کرتا رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildfunk
کولینڈا گرابار کیٹارووچ
اکاون برس کی کولینڈا گرابار کیٹارووچ بلقان خطے کے ملک کروشیا کی سربراہِ مملکت ہیں۔ وہ یہ منصب سنبھالنے سے قبل مختلف حکومتی عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ امریکا میں اپنے ملک کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ سن 2015 میں صدارتی انتخاب جیت کر صدر بننے والی خاتون رہنما اپنے ملک کی کم عمر ترین صدر بنی تھیں۔