1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پوتن اور روس میں استحکام کے امکانات

26 ستمبر 2011

روس کے آہنی مرد سمجھے جانے والے وزیر اعظم ولادی میر پوتن وسیع تر استحکام لانے کا عزم ظاہر کر رہے ہیں مگر ان کے بیشتر نقادوں کا خیال ہے کہ دوبارہ صدر منتخب ہوکر وہ روس میں مزید معاشی جمود اور افراتفری کا سبب بن سکتے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

اگلا صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے پوتن کا کہنا تھا کہ ۹۰ء کی دہائی میں سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد پیدا شدہ جن مسائل سے روس تاحال نہیں سنبھل پایا وہ انہیں ختم کریں گے۔ پوتن کے کڑے نقاد اور سابقہ سوویت یونین کے آخری صدر صدر میخائیل گورباچوف سے لے کر جیل میں مقید تیل کی صنعت کے بڑے روسی تاجر میخائل خودورکوفسکی تک بہت سے بڑے نام اُن کے دعووں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

روس کے موجودہ صدر دیمتری میدویدیف بھی روس میں اندرونی خلفشار کے خدشات ظاہر کر چکے ہیں۔ ہفتہ کو روس کی حکمران جماعت یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے اجلاس میں خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا، ’’ پر تکلف اور بیوروکریٹک طرز عمل خطرناک ہے، یہ جمود اور سیاسی نظام کی تنزلی کا سبب بنتے ہیں۔‘‘

۵۸ سالہ پوتن طویل عرصے تک روسی خفیہ ادارے کے جی بی کے ایجنٹ رہ چکے ہیںتصویر: AP

واضح رہے کہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی موجودہ روس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک، توانائی کا سب سے بڑا پیدا کنندہ اور جوہری ہتھیاروں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہے۔ سابق سوویت صدر گورباچوف روس کی موجودہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ جب تک بڑی تبدیلیاں نہیں لائی جاتیں وہ مستقبل میں مشکلات دیکھ رہے ہیں اور تبدیلی کے بغیر روسی استحکام کو خطرات لاحق ہیں۔

۸۰ سالہ گورباچوف موجودہ دور کو ۱۹۶۴ء سے ۱۹۸۲ء تک حکمرانی کرنے والے کمیونسٹ لیڈر لیوند بریژنی ایف کے دور سے تشبیہ دے رہے ہیں جب بڑے پیمانے پر تیل کی فروخت کے باعث دیگر بڑی معاشی و معاشرتی کمزوریاں چھپی رہیں۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو جب سابق روسی صدر بورس یلسن نے غیر متوقع طور پر اقتدار اعلیٰ پوتن کے حوالے کیا تو بہت سے روسیوں نے اسے ایک اچھی نوید سمجھا۔ پوتن نے چیچن علیٰحدگی پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے جو بیان دیے انہوں نے بہت سے شہریوں کو متاثر کیا کیونکہ یلسن کے دور میں علیٰحدگی پسند خاصے سرگرم ہوگئے تھے۔

روس کے سابق کمیونسٹ لیڈر لیوند بریژنی ایفتصویر: AP

پوتن نے اپنے پہلے دور حکومت میں ایسا کیا بھی، انہوں نے نہ صرف علیٰحدگی پسندوں کے خلاف محاذ میں پیشرفت کی بلکہ معیشت میں بھی تاریخی نوعیت کی کامیابیاں حاصل کیں۔ تاہم روسی خفیہ ادارے کے جی بی کے اس سابق ایجنٹ کی طرز حکمرانی میں آزادیء اظہار سمیت انسانی حقوق کے بہت سے دیگر پہلووں کو یکسر نظر انداز رکھا گیا۔ غیر ملکی رہنماوں پر دھونس جمائی گئی اور ملک کے اندر مقتدر شخصیات کو یا تو ملک بدر کیا گیا یا جیلوں میں ڈال دیا گیا جو اُن سے سرگردانی کے مرتکب ہوئے۔

ایسا ہی ایک نام خودورکوفسکی کا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کو بھیجے گئے ایک خط میں خودورکوفسکی کا کہنا ہے کہ اگر پوتن اقتدار میں آتے ہیں تو اندرون ملک موجودہ نظام میں اصلاحات کی امیدیں ختم ہونے کے علاوہ دانشور اور سرگرم کارکن ملک چھوڑ جائیں گے۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: عابد حسین

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں