ارتقا کے حوالے سے گفتگو عموماﹰ جانوروں اور انسانوں کے ارتقا میں الجھی رہتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ پودوں کا ارتقا کیسے ہوا؟ اور کیا پودے اور جانوروں کا جدِ ابجد ایک ہی ہے؟
اشتہار
ارتقا پر گفتگو مدت پہلے ہڈیوں، کھوپڑیوں اور ڈھانچوں کی اشکال سامنے رکھ کر اس نظریے کی درستی یا نادرستی کے گرد گھوما کرتی تھی۔ پھر ڈی این اے دریافت ہوا، تو 'مسنگ لنکس‘ والا معاملہ جیسے حل ہو گیا۔ تمام جانوروں کے درمیان ڈی این اے کا فرق اور یکسانیت ان کے جدِ ابجد کے ایک ہونے کی دلیل دینے لگیں۔ تاہم اس تمام گفتگو میں شاید آپ نے یہ سوال نہ دیکھا ہو کہ پودے بھی تو زندہ ہیں، تو کیا پودے جانوروں کے 'رشتہ دار‘ ہیں؟
پودوں میں ارتقا کیسے؟
سائنسدانوں کے مطابق پودوں کا ارتقا گرین ایلجی اور دیگر کثیرخلوی مخلوقات سے جڑا ہے۔ گو کہ اس وقت بھی بہت سی قدیمی سبز مخلوقات زور و شور سے جی رہی ہیں، مگر ان میں آج بھی ایک ارتقائی سفر مسلسل جاری ہے۔
اشتہار
سائنسدانوں کے مطابق ایک ارب سال پہلے میٹھے پانیوں میں کثیر خلوی فوٹو سینتھیٹک ایوکاریوٹیس کی آبادیاں ہوتی تھیں۔ یہ پیچیدہ کثیرخلوی فوٹوسینتھیٹک مخلوقات آٹھ سو پچاس ملین برس قبل یعنی پری کیمبرین عہد میں پانی سے باہر یعنی خشکی پر رہنے لگیں۔
یہ بات واضح رہے کہ فوٹو سینتھیسس ہی وہ عمل ہے، جس کے ذریعے پودے سورج کی روشنی میں اپنے لیے خوراک تیار کرتے ہیں جب کہ اس عمل کے دوران وہ آکسیجن کا اخراج جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا انجذاب کرتے ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ خشکی کے پودے ایمبریوفیٹ کے اوڈوویکین عہد یعنی چار سو ستر ملین برس قبل اور وسطی ڈیوونین عہد یعنی تین سو نوے ملین برس قبل میں شواہد ملتے ہیں۔
جانوروں اور پودوں کا ڈی این اے
اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ پودے اور جانور زمین پر موجود قریب نوے فیصد دیگر مخلوقات کے مقابلے میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں۔
شدید سردی میں پودے اور جانور زندہ کیسے رہتے ہیں؟
سرد علاقوں میں جیسے جیسے درجہ حرارت کم ہوتا جاتا ہے، وہاں پائے جانے والے پودوں اور جانوروں میں تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ ایک نظرایسے جانوروں اور پودوں پر جوخوراک کی کمی کے باوجود اپنی زندگی کی جنگ نہیں ہارتے۔
تصویر: H.Schweiger/WILDLIFE/picture alliance
منجمد جنگل
شدید سردی میں درخت اپنی نشو ونما کا عمل روک دیتے ہیں اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے غیر فعال ہو جاتے ہیں۔ جمی ہوئی برف کی وجہ سے زیر زمین پانی کی قلت ایک بڑا مسئلہ بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسے میں صنوبر کے درخت اپنے پتوں کے گرد موم جیسی تہہ بنا لیتے ہیں تاکہ ان کا اندرونی پانی پتوں کے راستے ضائع نہ ہو۔
تصویر: Stephan Rech/imageBROKER/picture alliance
پتے گرا دینے والے درخت
برگ ریز کہلانے والے درخت سردی کا مقابلہ اپنے پتے گرا کر کرتے ہیں۔ دوسری صورت میں ان کے تنوں میں موجود پانی ختم ہو جائے اور وہ موت کے منہ میں چلے جائیں۔ کچھ درخت شدید سردی میں خود کو منجمد ہونے سے بچانے کے لیے اپنے خلیات سے ہلکا ہلکا پانی خارج کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کچھ درخت سردیوں میں زیادہ شوگر پیدا کرتے ہیں تاکہ ان کی سردی کے خلاف مدافعت بڑھ جائے۔
تصویر: Andrew McLachlan/All Canada Photos/picture alliance
خوراک کا ذخیرہ
موسم سرما کے سخت حالات جانوروں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ نہ صرف خوراک کم ہو جاتی ہے بلکہ دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے خوراک تلاش کرنے کا دورانیہ بھی محدود ہو جاتا ہے۔ کئی جانور موسم سرما سے پہلے ہی خوراک ذخیرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ شمالی امریکی چوہا نما جانور اپنے بل میں خشک خوراک جمع کرتا رہتا ہے، جو برف باری کے موسم میں کئی ماہ تک کے لیے کافی ہوتی ہے۔
تصویر: H.Schweiger/WILDLIFE/picture alliance
نئے ’کوٹ‘ پہننے والے جانور
کچھ جانور موسم سرما کا مقابلہ چربی کی اضافی تہہ اور بڑھتی ہوئی فر سے کرتے ہیں۔ یہ قطبی لومڑی تو سردیوں میں اپنی فر کا رنگ ہی سیاہ سے مکمل سفید میں تبدیل کر لیتی ہے۔ اس طرح وہ سردیوں میں اچھا شکار کر سکتی ہے۔ اس کی موٹی کھال بھی اسے شدید سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔
موسم سرما کی طویل نیند
مارموت کی طرح کے ممالیہ جانور شدید موسم سرما کا مقابلہ طویل نیند سے کرتے ہیں۔ یہ ایک محفوظ بل یا جگہ کا انتخاب کرتے ہیں اور گہری نیند میں چلے جاتے ہیں۔ اس دوران ان کے دل کی دھڑکن، جسمانی درجہ حرارت اور سانس لینے کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے تاکہ توانائی محفوظ رہے۔ ریچھ بھی ایسی نیند سو سکتے ہیں لیکن ان کا جسمانی درجہ حرارت برقرار رہتا ہے کیوں کہ ان کی موٹی فر انہیں سردی سے بچا لیتی ہے۔
ریچھ کو تو اس کی موٹی فر گرم رکھتی ہے لیکن ایسے کیڑے مکوڑے اپنی جان کیسے بچاتے ہیں؟ ان کے جسموں کا زیادہ تر حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، لہٰذا ان کے زندہ رہنے کے لیے منجمد ہونے سے بچنا لازمی ہوتا ہے۔ ایسے کچھ کیڑوں میں اینٹی فریز مادہ پیدا ہوتا ہے، جو آئس کرسٹلز کو ان کے خلیوں پر جمنے ہی نہیں دیتا۔ اس طرح کا ایک کیڑا ’فائر کلرڈ بیٹل‘ بھی ہے، جو منفی تیس سینٹی گریڈ میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: D. Vorbusch/McPHOTO/picture alliance
میٹابولک سوئچ
کچھوے موسم سرما تالاب کی تہہ میں گزار سکتے ہیں، چاہے تالاب کی سطح پر برف ہی کیوں نہ جمی ہوئی ہو۔ یہ کچھوے اپنا میٹابولک ریٹ نوے فیصد تک کم کر لیتے ہیں یعنی یہ تقریباﹰ بغیر خوراک کے ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ عمومی طور پر یہ پانی سے باہر آکسیجن جمع کرنے کے لیے آتے ہیں لیکن سردیوں میں یہ اپنے پھیپھڑوں کو استعمال کیے بغیر اپنے جسم کی بیرونی سطح کے ذریعے پانی سے آکسیجن جذب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
تصویر: Bob Karp/ZUMAPRESS.com/picture alliance
7 تصاویر1 | 7
پودوں اور جانوروں، دونوں کا خلیات ایوکاریوٹیس ہیں۔ یعنی ایسے خلیات جن کے مرکز میں نیوکلیس ہوتا ہے۔ بیکٹیریا اور ارچیا وغیرہ کے مقابلے میں پودوں اور جانوروں کا خلیاتی ڈھانچا ایک سا ہے۔ اسی طرح کئی یک خلوی ایوکاریوٹیس ایسے بھی ہیں، جو جانوروں اور پودوں کے باہمی قرب کے مقابلے میں ان دونوں کے قریب ہیں۔ یعنی پودوں اور جانوروں کا نسب غالباﹰ انہیں خلیات پر جا کر مل جاتا ہے۔
اسی بنا پر پودے اور جانوروں کئی بنیادی امور میں ایک سے ہیں۔ دونوں بالکل ڈی این ای کی نقل بنانے کے لیے ٹھیک ایک سا انزائم استعمال کرتے ہیں اور دونوں میں پروٹین پیدا کرنے کے لیے رائبوسومز بالکل ایک سے ہیں۔ یہ وہ خواص ہیں جو بیکٹریا اور اکیا میں نہیں مگر پودوں اور جانوروں میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔
جانوروں اور پودوں دونوں کے خلیات میں نیوکلیائی ہوتا ہے اور کروموسومز لینیئر پیکیج ایک سے پروٹینز سے بنا ہوتا ہے۔
معمولی فرق؟
پودوں اور جانوروں میں بنیادی فرق فوٹو سینتھیسس ہے۔ مگر یہ فرق بہت بڑا نہیں۔ پودوں کے خلیات میں کلوروپلاسٹ ہوتا ہے، جب کہ جانوروں کے خلیات میں یہ عنصر نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات نہایت مزے دار ہے کہ کلوروپلاسٹ ایڈوسیمبیوٹک سینابیکٹیریا کے ارتقا سے پیدا ہوا جب کہ جانوروں میں بھی ایڈوسیمبیونٹس پایا جاتا ہے اور جانوروں میں بھی اس کی موجودگی ٹھیک پودوں والی ہی وجوہ کی بنا پر ہے۔ یہ فقط اتفاق ہے کہ پودوں کے جدِ ابجد نے ایڈوسیمبیوٹک حاصل کر لیا، جس کے ذریعے وہ فوٹوسینتھائز کرنے لگے جب کہ جانور ایسا نہ کر پائے۔