1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’پورا امریکا شمالی کوریا کے میزائلوں کی زد میں؟‘

عاطف توقیر
29 جولائی 2017

جمعہ اٹھائیس جولائی کی رات شمالی کوریا نے اپنے دوسرے بین البراعظمی میزائل کا تجربہ بھی کر دیا، جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اس میزائل کے ذریعے امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

Nordkorea Kim Jong Un schaut sich die balistische Rakete Hwasong-12 an
تصویر: Reuters/KCNA

جمعے ہی کی رات امریکی، جنوبی کوریائی اور جاپانی حکام نے بھی تصدیق کر دی کہ شمالی کوریا نے اپنے ایک نئے بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کیا ہے۔

شمالی کوریا نے یہ میزائل چینی سرحد کے قریب واقع اپنے علاقے مُوپیونگ سے داغا، جس نے مجموعی طور پر ایک ہزار کلومیٹر کا سفر طے کیا اور جاپان کی سمندری حدود کے قریب سمندر میں جا گرا۔

شمالی کوریا نے بھی جمعے کی شب اس میزائل تجربے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ یہ میزائل 47 منٹ تک فضا میں رہا اور سطح زمین سے 37 سو کلومیٹر کی بلندی تک گیا۔ یو سی جی گلوبل سکیورٹی پروگرام کے معاون ڈائریکٹر ڈیوڈ رائٹ کے مطابق اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں، تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس میزائل کی رینج قریب دس ہزار چار سو کلومیٹر تک ہے، یعنی اس کے ذریعے شمالی کوریا سے امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ رائٹ نے ان اعداد و شمار کے حوالے سے کہا کہ امریکی شہر لاس اینجلس، ڈینور اور شکاگو اس میزائل کے نشانے پر ہیں جب کہ بوسٹن اور نیو یارک تک کو بھی اس سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

شمالی کوریا کی جانب سے رواں برس میزائل تجربات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/Jeon Heon-Kyun

زاویہء قائمہ پر اس میزائل کی اڑان کا مطلب یہ ہے کہ پیونگ یانگ اسے جاپانی فضائی حدود میں داخل کیے بغیر اپنے ہدف تک پہنچانے کا اہل ہو گیا ہے۔

شمالی کوریا کا دعویٰ ہےکہ اس میزائل تجربے کے ذریعے امریکا کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ پیونگ یانگ کے خلاف کسی بھی عسکری کارروائی سے باز رہے کیوں کہ امریکا کے تمام علاقے شمالی کوریا کے نشانے پر ہیں۔

شمالی کوریا کے خبر رساں ادارے کے سی این اے نے ملکی رہنما کم جونگ اُن کا ایک بیان بھی جاری کیا ہے، جس کے مطابق، ’’واشنگٹن کی جانب سے جنگ کی دھمکیاں ہمیں بتا رہی ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری درست عمل ہے۔‘‘

دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس میزائل تجربے کے بعد اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’یہ شمالی کوریا کی حکومت کا ایک اور بھیانک اور خطرناک عمل ہے، جس سے یہ ملک مزید تنہا اور اقتصادی طور پر اور زیادہ کمزور ہو گا۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں