جنگ زدہ شام کے تیل کی پیداوار کے لیے مشہور مشرقی شہر دیر الزور کو شامی حکومتی دستوں نے تین سال بعد پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ اس شہر پر دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے دو ہزار چودہ میں قبضہ کر لیا تھا۔
اشتہار
لبنانی دارالحکومت بیروت سے جمعہ تین نومبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ شام کے سرکاری میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ دیر الزور اب مکمل طور پر صدر بشار الاسد کی حامی فوج کے کنٹرول میں ہے۔
اس پیش رفت کی سرکاری ٹیلی وژن کی طرف سے تصدیق سے پہلے ملکی فوج کے اعلیٰ ذرائع اور برطانیہ میں قائم شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بھی تصدیق کر دی تھی کہ دیر الزور میں، جو ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا آخری بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا، داعش کو ایک اور بڑی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
شامی ٹیلی وژن پر اس حوالے سے بتایا گیا، ’’شامی حکومتی دستوں نے، اپنی اتحادی فورسز کے ساتھ مل کر دیر الزور کو دہشت گرد تنظیم داعش کے پنجوں سے پوری طرح آزاد کرا لیا ہے۔‘‘ دیر الزور شہر میں، جو اسی نام کے مشرقی شامی صوبے کا دارالحکومت بھی ہے، ایک مخصوص حکومتی علاقے کو داعش نے تین سال قبل اپنے عسکری پھیلاؤ کے دور کے نقطہ عروج پر وہاں موجود اسد حکومت کے دستوں اور قریب 93 ہزار عام شہریوں سمیت اپنے گھیرے میں لے لیا تھا۔
یہ محاصرہ طویل عرصے تک جاری رہا تھا۔ اس سال ستمبر میں شامی دستے یہ محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تھے، جس کے اس پورے شہر کو داعش کے جہادیوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے ایک بڑی جنگ شروع ہو گئی تھی۔
ان عسکری کارروائیوں میں اسد حکومت کی فوجوں کو روسی فضائیہ کے وسیع تر فضائی حملوں کی صورت میں بڑی فیصلہ کن مدد بھی حاصل رہی تھی، جس کے ذریعے اس شہر پر داعش کی گرفت کا خاتمہ ممکن ہو سکا۔
شامی خانہ جنگی میں پیدا ہونے والے
00:48
دیر الزور میں اسد حکومت کی اس کامیابی کے بارے میں دمشق کی عسکری اتحادی حزب اللہ ملیشیا کے میڈیا یونٹ کی طرف سے بتایا گیا، ’’فوج نے دیر الزور میں الحامدیہ، شیخ یاسین، الارضی اور الراشدیہ نامی ان علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا ہے، جو اس شہر میں داعش کے زیر قبضہ آخری علاقے تھے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق اسد حکومت کو مشرقی شام میں ملنے والی اس کامیابی میں روسی فضائیہ کے حملوں کے علاوہ ایران اور حزب اللہ کی شیعہ ملیشیاؤں نے بھی اہم کردارا دا کیا جبکہ دوسری طرف وہ شامی ملیشیا گروپ بھی داعش کے خلاف لڑ رہے تھے، جنہیں امریکا کی حمایت حاصل ہے۔
دیر الزور مشرقی شام کا سب سے بڑا اور اہم ترین شہر ہے، جو دریائے فرات کے کنارے واقع ہے اور جو اسی نام کے صوبے کا دارالحکومت بھی ہے۔ دیر الزور صوبہ شام میں تیل کی پیداوار کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس شہر سے نکالنے جانے کے بعد داعش کے جنگجو اب اس شامی صوبے کے جن حصوں میں موجود ہیں، وہ عراق کے ساتھ سرحد پر واقع اس صوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ بنتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ یہ علاقہ شہر سے باہر زیادہ تر دریائے فرات کے قریبی علاقوں اور چند صحرائی حصوں پر مشتمل خطہ ہے۔
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔