جرمن پولیس نے ایک ایسی بہت مہنگی لیکن انتہائی چمکیلی پورشے سپورٹس کار سڑک سے اتار کر اپنے قبضے میں لے لی ہے، جو کسی بھی روڈ پر ’دوسرے ڈرائیوروں کے لیے خطرناک‘ تھی کیونکہ وہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا سکتی تھی۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ شمالی جرمنی کے بندرگاہی شہر ہیمبرگ میں پیش آیا، جو جرمنی کا ایک وفاقی صوبہ بھی ہے۔
یورپ میں گاڑیوں کی بہار
یورپ میں اگر گاڑیوں کے موسم بہار کے آغاز کی بات کی جائے تو اس کی شروعات معمول کے مطابق سوئس شہر جنیوا میں موٹر گاڑیوں کے میلے سے ہوتی ہے۔ اس مرتبہ اس میلے میں تیس مختلف ممالک کے دو سو سے زائد نمائش کنندگان موجود ہیں۔
تصویر: Daimler AG
اوپل کی انسِگنیا
انٹرنیشنل جنیوا موٹر شو میں اوپل اپنے انسِگنیا ماڈل کا گرینڈ اسپورٹس ورژن پیش کر رہی ہے۔ اس کی قیمت چھبیس ہزار یورو ہے جبکہ گاڑی کا اندرونی حصہ انتہائی متاثر کن ہے۔
تصویر: GM Corp
پیژو ایک منفرد انداز
فرانسیسی کار ساز ادارہ پیژو ( Peugeot) جنیوا میں ’انسٹنکٹ‘ نامی اپنی کونسیپٹ کار کے ساتھ شریک ہو رہا ہے۔ یہ مکمل طور پر خود کار ہے اور اس میں انٹرنیٹ کی سہولت جنوبی کوریائی کمپنی سام سنگ نے مہیا کی ہے۔
تصویر: PSA
سِٹروئن کراس
فرانسیسی کار ساز اداروں کے گروپ ’ پی ایس اے‘ میں پیژو کے ساتھ ساتھ سِٹروئن بھی شامل ہے۔ جنیوا میں سِٹروئن اپنی ایک ایسی جیپ پیش کر رہی ہے، جو شہر کے اندر چلانے کے لیے بنائی گئی ہے۔ جیپ کا نام ہے’ سی ایئر کراس کونسیپٹ‘۔
تصویر: PSA
فوکس ویگن کا تصور
جرمن کار ساز ادارہ فوکس ویگن جنیوا میں’آرٹیؤن‘ نامی ایک گاڑی پیش کر رہا ہے۔ اس گاڑی کا ڈیزائن انتہائی منفرد قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Volkswagen
پورشے اور الیکٹرک؟
کیا یہ ممکن ہے کہ پورشے کی کسی گاڑی کے انجن کی طاقت 462 ہارس پاور ہو اور وہ ایک سو کلومیٹر فاصلہ صرف ڈھائی لیٹر میں طے کرے؟ جی ہاں پورشے نے اپنے ماڈل پانامیرا ای ہائبرڈ متعارف کرا کے یہ ممکن کر دکھایا ہے۔ جنیوا میں پہلی مرتبہ پانامیرا کی اسٹیشن ویگن پیش کی جا رہی ہے۔
تصویر: Porsche AG
فیملی کار
مرسیڈیز نے گزشتہ ایک سال کے دوران اپنے ای کلاس ماڈل کو مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے ایک نئے انداز سے متعارف کرایا ہے۔ ابھی تک صرف ای کلاس کے کنورٹیبل ماڈل کی کمی تھی اور یہ کمی جنیوا میں پوری کی جا رہی ہے۔
تصویر: Daimler AG
ریگستانوں کی شہنشاہ
یقین نہیں آتا کہ کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ مرسیڈیز ’جی‘ ماڈل جیپ بہت عرصے سے بنا رہا ہے اور یہ انتہائی مقبول بھی ہے۔ تاہم اب یہ گاڑی مائی باخ جی 650 کے طور پر بھی متعارف کرا دی گئی ہے۔ اگر آپ اس گاڑی میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اسے خریدنے کے لیے آپ کے پاس پانچ لاکھ یورو ہونے چاہیے۔ مرسیڈیز اس ماڈل کی صرف 99 گاڑیاں تیار کرے گا۔
تصویر: Daimler AG
بی ایم ڈبلیو کی فائیو سیریز
جرمن کار ساز ادارے بی ایم ڈبلیو جنیوا میں اپنی فائیو سیریز کے ساتھ موجود ہو گا۔
تصویر: BMW AG
الفا رومیو کی بھی جیپ
یورپ میں جیپ کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے ہر کار ساز ادارہ جیپ کا ماڈل متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔ اب اطالوی کار ساز ادارے الفا رومیو کی جیپ بھی جنیوا کار شو میں دیکھنے کو ملے گی۔
تصویر: FCA
طاقت ور اور تیز ترین
جنیوا کار شو میں آپ کو فیراری کی اب تک کی سب سے طاقت ور انجن کی حامل اور سبک رفتار گاڑی دیکھنے کو ملے گی۔ اس گاڑی کا انجن آٹھ سو ہارس پاور کا ہے اور یہ گاڑی صرف 2.9 سیکنڈز میں سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کو پہنچ جاتی ہے۔
تصویر: Ferrari
فیراری کے مقابلے میں لیمبورگینی
لیمبورگینی ’ایونٹاڈور ایس‘ کے انجن کی طاقت 740 ہارس پاور ہے اور یہ گاڑی ساڑھے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک سڑکوں پر دوڑ سکتی ہے۔ اسپورٹس کار کے شوقین اس گاڑی کو جنیوا کار شو میں دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: Lamborghini
11 تصاویر1 | 11
ہیمبرگ سے شائع ہونے والے اخبار ’مورگن پوسٹ‘ نے اپنی جمعہ بارہ اپریل کی اشاعت میں لکھا کہ یہ کار پورشے کی پانامیرا ماڈل کی ایک ایسی کار تھی، جس پر انتہائی چمکیلا ’کروم کور‘ لگا ہوا تھا۔
یہ بہت مہنگی جرمن ساختہ سپورٹس کار دیکھنے میں اتنی چمکدار تھی کہ لگتا تھا جیسے وہ لشکارے مارتے سونے کی بنی ہوئی ہو۔ اخبار ’مورگن پوسٹ‘ کے مطابق اس گاڑی کے ڈرائیور کو پہلی بار پولیس نے گزشتہ ہفتے روک کر بتایا تھا کہ اس کی گاڑی سڑک پر ڈرائیونگ کرنے والے دیگر تمام ڈرائیوروں کے لیے اس لیے ایک بڑا خطرہ تھی کہ خاص طور پر سامنے سے آنے والے کسی بھی ڈرائیور کی آنکھیں اس دیکھ کر چندھیا سکتی تھیں۔ اس صورت میں کوئی بڑا حادثہ بھی خارج از امکان نہیں تھا۔ پولیس نے گاڑی کے مالک سے کہا تھا کہ وہ اس پر لگا ’گولڈن کروم کور‘ اتروا کر اس کی رجسٹریشن بھی دوبارہ کرائے۔
گاڑی کے مالک نے پولیس کی اس تنبیہ کی بظاہر کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ پھر پرسوں بدھ دس اپریل کو جب ہیمبرگ شہر ہی کی ایک سڑک پر پولیس نے اس گاڑی کو ایک بار پھر روکا، تو دوسروں کی سلامتی سے متعلق اس ڈرائیور کی ’مجرمانہ لاپرواہی‘ بھی ثابت ہو گئی۔
جنیوا موٹر شو
جنیوا موٹر شو کو یورپ میں گاڑیوں کا سب سے بڑا شو قرار دیا جاتا ہے۔ اس شو میں جدید کاروں کے علاوہ اسپورٹس کاریں بھی رکھی جاتی ہیں۔ یہ نمائش پانچ سے پندرہ مارچ تک جاری رہے گی۔
تصویر: Ferrari
فیراری
اس نمائش میں فیراری کا ’وی ایٹ‘ ماڈل پہلی مرتبہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ 670 ہارس پاور (ایچ پی) والی اس کار کی رواں برس ستمبر سے پروڈکشن شروع کر دی جائے گی۔ یہ کار تقریباﹰ آٹھ سیکنڈ میں صفر سے دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی سپیڈ پر چلی جاتی ہے۔
تصویر: Ferrari
بی ایم ڈبلیو
بی ایم ڈبلیو کے ’الپائنہ بی 6 ایڈیشن 50‘ ماڈل کی صرف پچاس گاڑیاں تیار کی گئی ہیں۔ یہ ایک خصوصی ماڈل ہے اور کمپنی اپنے صارفین کو مخصوص نمبر پلیٹ کے ساتھ بیچے گی۔ یہ کار 330 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کی قیمت کم از کم ڈیڑھ کروڑ روپے ہو گی۔
تصویر: Alpina
مرسیڈیز
مرسیڈیز نے اپنی کار ’سی ایل اے 45 اے ایم جی‘ کا نام شوٹنگ بریک رکھا ہے۔ اس کی قیمت کا آغاز تقریباﹰ چھیاسٹھ لاکھ روپے سے ہوتا ہے۔ اس کار کو خصوصی طور پر اسپورٹ کار جیسی شکل دی گئی ہے۔
تصویر: Daimler AG
نیسان انفینٹی
جاپان کے کار ساز ادارے نیسان کی طرف سے ’انفینٹی کیو ایکس 30‘ پیش کی گئی ہے۔ اس کار کی تیاری میں مرسیڈیز کی ٹیکنالوجی بھی استعمال کی گئی ہے۔ اسے بڑے کار ساز اداروں کے تعاون کی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: Nissan
اوپل کورسا
یہ گاڑی کار ساز ادارے اوپل کی طرف سے جنیوا موٹر شو میں رکھی گئی ہے۔ کورسا او پی سی نامی یہ گاڑی 207 ہارس پاور کی ہے اور اپریل کے آواخر یا مئی کے شروع میں اسے مارکیٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔ اس کی قیمت کا آغاز تقریباﹰ اٹھائیس لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے۔
تصویر: Opel
رولس روئس
رولس روئس اپنے صارفین کو ’سرینٹی‘ نامی کار کے ذریعے ’امن کی پناہ گاہ‘ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ یہ کمپنی اپنے صارفین کو کچھ منفرد پیش کرنا چاہتی ہے۔ اس کار کہ چھت پر ریشم کے ساتھ جاپانی ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔
تصویر: Rolls-Royce
فولکس واگن (وی ڈبلیو)
خصوصی گاڑیوں کی فہرست میں کار ساز ادارے فولکس واگن کی ’گولف جی ٹی ڈی‘ نامی کار بھی شامل ہے۔ 184 ہارس پاور کی اس کار کو فیملی کار کہا جا رہا ہے اور تقریباﹰ سینتیس لاکھ روپے میں خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: VW
لائٹ کوکُون
کمپنی Edag کی طرف سے لائٹوں سے مزین اسپورٹس کار مارکیٹ میں پیش کی گئی ہے۔ اس کار کو لائٹ کوکُون کا نام دیا گیا ہے۔ نئے میٹریل سے تیار کردہ اس کار کو ماحول دوست قرار دیا جا رہا ہے اور یہ تھری ڈی پرنٹر سے تیار کی گئی ہے۔
تصویر: EDAG
میکلارن پی ون جی ٹی آر
نو سو ہارس پاور والی ہائبرڈ ماڈل کی یہ کار پورشے، فیراری اور میکلارن کے اشتراک سے تیار کی گئی ہے۔ یہ کار ثابت کرتی ہے کہ گاڑیوں کی صنعت میں ابھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے۔ 660 کلو وزنی یہ کار 240 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتی ہے۔
تصویر: McLaren
9 تصاویر1 | 9
پولیس نے ڈرائیور سے گاڑی کی چابی اور رجسٹریشن کاغذات لیے، نمبر پلیٹ بھی اتار دی اور پھر ایک ٹرک کے ذریعے اس گولڈن پورشے کو ایک گیراج میں بھجوا دیا۔ ڈرائیور کو اچھا خاصا جرمانہ بھی کیا گیا، جس کی مالیت نہیں بتائی گئی۔ پولیس کے مطابق یہ گاڑی اب اسی وقت دوبارہ سڑک پر آ سکے گی، جب اس پر لگا ’گولڈن کروم کور‘ اتر جائے گا۔ گیراج کا بل بھی ڈرائیور کو ہی دینا ہو گا۔
اخبار ’مورگن پوسٹ‘ کے مطابق گزشتہ ہفتے ہیمبرگ میں پولیس نے اس ڈرائیور کے ساتھ اسی قسم کی ایک انتہائی چمکدار اور اطالوی ساختہ لامبورگینی کار چلانے والے ڈرائیور کو بھی روکا تھا۔ اسی بھی کہا گیا تھا کہ وہ اپنی گاڑی پر لگا ’گولڈن کروم کور‘ اتروا دے۔ لامبورگینی کے ڈرائیور نے تو پولیس کے مشورے پر عمل کیا لیکن پورشے کے مالک نے لاپرواہی کی، جس کا اب اس نے نتیجہ بھی بھگت لیا ہے۔
پولیس نے جو پورشے پانامیرا اب ’آف روڈ‘ کر دی یے، وہ 500 ہارس پاور کے انجن والی ایک ایسی لگژری سپورٹس کار ہے، جس کی جرمنی میں قیمت کم از کم بھی 157.000 یورو (180.000 ہزار امریکی ڈالر کے برابر) ہوتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں یہ قیمت ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ بنتی ہے۔
م م / ش ح / اے پی
ارے یہ کیا ہے؟ نقل و حمل کے عجیب و غریب ذرائع
آلوؤں کی بوریاں، میٹروں لمبی لکڑی یا کئی کئی کلوگرام گنّا، دنیا بھر میں لوگ کسی نہ کسی طرح سے اپنی چیزیں ایک سے دوسری جگہ لے جانے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں، خواہ بائیسکل اور موٹرسائیکل کے ذریعے اور یا پھر گدھے کے ذریعے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Hase
کانگو: چوکُوڈُو
آگے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے پہیے، ایک اسٹیئرنگ اور بڑا سا لکڑی کا تختہ چیزیں رکھنے کے لیے۔ یہ عجیب و غریب گاڑی چوکُوڈُو کہلاتی ہے اور مشرقی کانگو میں ہی بنتی اور وہیں استعمال ہوتی ہے۔ اسے دھکیلنے کا طریقہ بھی سادہ اور آسان ہے اور موٹر انجن سے چلنے والی گاڑی کا انتہائی سستا متبادل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
فلپائن: جیپنی
فلپائن میں نقل و حمل کے لیے جیپنی استعمال ہوتی ہے، جو بہت زیادہ دھواں پیدا کرنے کی وجہ سے زیادہ ماحول دوست تصور نہیں ہوتی اور تنقید کا ہدف بنتی ہے۔ اس طرز کی گاڑیاں بہت پرانی بھی ہیں۔ انہیں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکیوں کی چھوڑی ہوئی جیپوں کی مدد سے مقامی رنگ دے کر بنایا گیا تھا۔ اور تو اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کے نئے ماڈل بھی آ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Reboredo
ویت نام: موٹر سائیکل
بہت کم ہارس پاور کی یہ موٹر سائیکل جنوب مشرقی ایشیائی ملک ویت نام میں بہت کام کی چیز ہے۔ صرف دارالحکومت ہینوئے میں ہی، جس کی آبادی 6.5 ملین نفوس پر مشتمل ہے، ایسی چار ملین موٹر سائیکلز ہیں۔ صرف دو نشستوں والی اس موٹر سائیکل پر پورا کنبہ سما سکتا ہے۔ آج کل ویت نام جانے والے سیاح بھی شوق سے اس پر بیٹھ کر ملک کی سیر کرتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AFP Creative/H. D. Nam
کمبوڈیا: بانسوں کی ریل
بانسوں سے بنی یہ ریل نَوری بھی کہلاتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کمبوڈیا میں نقل و حمل کا یہ ذریعہ کم سے کم نظر آنے لگا ہے۔ کسی زمانے میں یہ گاڑی ایک ہنگامی حل کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ سیاحوں میں اسے بے حد مقبولیت حاصل ہے۔ آپ صرف تقریباً پانچ مربع میٹر بڑے چوبی تختے پر زیادہ سے زیادہ پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چاول کے کھیتوں اور دیہات کے بیچوں بیچ سے گزرتے ہوئے ملک کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. C. Sothy
تھائی لینڈ: ٹُک ٹُک
سیاحوں میں ٹُک ٹُک بھی بہت مقبول ہے، جو تھائی لینڈ میں ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سے ملکوں میں عام نظر آتی ہے۔ یہ ٹریفک کے ہجوم میں بھی ہوا سے باتیں کرتی ہے اور تنگ سڑکوں اور گلیوں سے بھی آسانی سے نکل جاتی ہے۔ یہ مسافروں کو لے جانے والی عام ٹیکسی کا سستا متبادل بھی ہے۔ انہیں آٹو رکشہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ سائیکل رکشہ ہی کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔
تصویر: picture alliance/P. Kittiwongsakul
کمبوڈیا: سائیکل رکشہ
خود سائیکل رکشہ بھی ہاتھ سے چلنے والی رکشہ کی ترقی یافتہ شکل ہیں، جو کبھی جاپان میں استعمال ہوتی تھی۔ تین پہیوں والی اس سائیکل کو بہت سے ملکوں میں ٹرانسپورٹ کے ایک تیز اور سستے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل ہیں، جن میں سے کئی ایک میں آگے نہیں بلکہ پیچھے بھی بیٹھنے یا سامان لادنے کی جگہ بنی ہوتی ہے۔
تصویر: picture alliance/Robert Harding/S. Dee
پاکستان، افغانستان: گدھا
افغانستان یا پھر پاکستان میں بھی سامان لانے لے جانے کے لیے صدیوں سے گدھا استعمال کیا جا رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ کا یہ روایتی طریقہ پانچ ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے زراعت کے ساتھ ساتھ انسانوں کو لانے لے جانے یا پھر مال برداری کے لیے بھی استعمال ہو رہا ہے۔ ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کے مقابلے میں گدھا بہت سستا پڑتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Photoshot
جرمنی: مال بردار بائیسکل
بہت سے یورپی باشندے پھر سے ٹرانسپورٹ کے سادہ طریقوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ اس بائیسکل کے ذریعے آپ اپنی شاپنگ کا سامان بھی گھر لے جا سکتے ہیں یا پھر ایک ساتھ ایک سے زیادہ بچوں کو بھی ایک سے دوسری جگہ لے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر کولون اور برلن جیسے بڑے شہروں میں اس طرح کے بائیسکل بہت مقبول ہو رہے ہیں۔ ویسے ایسی بائیسکل اتنی سستی بھی نہیں ہے، اس کی کم از کم قیمت ایک ہزار یورو بتائی جاتی ہے۔