پولیس نے زینب کی تلاش میں سست روی سے کام لیا، انیس انصاری
صائمہ حیدر
11 جنوری 2018
پاکستان کے شہر قصور میں جنسی زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی سات سالہ بچی کے والد نے پنجاب پولیس پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کی بیٹی کے لاپتہ ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرنے میں بہت سست روی سے کام لیا۔
اشتہار
یہ بات ریپ کا شکار ہونے والی مقتولہ بچی زینب کے والد انیس انصاری نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کے بعد کہی۔ جس وقت زینب لاپتہ ہوئی، اُس کے والد اپنی اہلیہ کے ساتھ عمرہ کرنے گئے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف زینب کی دردناک موت پر اُس کے خاندان سے تعزیت کرنے قصور پہنچے تھے۔
سات سالہ زینب گزشتہ ہفتے اُس وقت لاپتہ ہو گئی تھیں، جب وہ قریب کے ایک گھر میں قرآن کا درس لینے جا رہی تھیں۔ زینب کی لاش منگل کے روز کوڑے کے ایک ڈھیر میں پڑی ملی تھی۔
لاش ملنے کے بعد سے ہی قصور شہر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا جو آج جمعرات کے روز تک جاری ہے۔ یہ مظاہرے حکومت اور پولیس کے خلاف کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ زینب کے قاتلوں کو فوری گرفتار کر کے عبرت ناک سزا دی جائے۔
ان مظاہروں میں اب تک دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ تین کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
شہباز شریف نے زینب کے والد کو یقین دلایا ہے کہ اُن کو انصاف دلایا جائے گا جب کہ پنجاب حکومت کے ایک بیان کے مطابق قصور کے پولیس سربراہ کو اس معاملے میں غفلت برتنے پر ملازمت سے بر طرف کر دیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں پنجاب پولیس کے تین اہلکاروں کو ہوا میں فائرنگ کرنے کے بجائے پستولوں کا رخ بدھ کے روز مظاہرہ کرنے والوں کی جانب کرنے پر گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
زینب کے ساتھ جنسی زیادتی اور اس کے قتل پر پاکستان بھر میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سول سوسائٹی کے کارکنان سمیت ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس کی مذمت کر رہے ہیں۔
پاکستانی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا ہے کہ وہ ایمن کے ساتھ ہوئے الم ناک سانحے پر دل شکستہ ہیں۔ ملالہ نے ایمن کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔
’کم عمر لڑکی کا ریپ اور قتل، پورا ارجنٹائن سڑکوں پر نکل آیا‘
ارجنٹائن میں ایک 16 سالہ لڑکی کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ اس گھناؤنے جرم کے خلاف ملک بھر میں خواتین سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
جنسی زیادتی کے خلاف احتجاج
ارجنٹائن کی عورتیں اور مرد 16 سالہ لڑکی لوسیا پیریز کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے خلاف بڑی تعداد میں سٹرکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے کالے لباس پہن کر ہلاک شدہ لڑکی کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Abramovich
ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل
گزشتہ برس جون میں بھی کئی ایسے واقعات کے بعد غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا تاہم اس بار لوسیا پیریز کی ہلاکت کے بعد بہت بڑی تعداد میں ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر لکھا ہے،’’اگر تم نے ہم میں سے کسی ایک کو ہاتھ لگایا تو ہم سب مل کر جواب دیں گی۔‘‘ ایک اندازے کے مطابق ارجنٹائن میں ہر تیس گھنٹے میں ایک عورت قتل کر دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. R. Caviano
پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا
لوسیا پیریز آٹھ اکتوبر کو ریپ اور تشدد کا نشانہ بننے کے بعد جانبر نہ ہوسکی تھی۔ پراسیکیوٹر ماریہ ایزابل کا کہنا ہے کہ پیریز کو کوکین دے کر نشہ کرایا گیا تھا اور ’غیر انسانی جنسی تشدد‘ کے باعث اس لڑکی کے حرکت قلب بند ہو گئی تھی۔ مجرموں نے اس کے مردہ جسم کو دھو کر صاف کر دیا تھا تاکہ یہ جرم ایک حادثہ لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے
پولیس کے مطابق ایک اسکول کے باہر منشیات فروخت کرنے والے دو افراد کو پولیس نے اس جرم کے شبے میں حراست میں لے لیا ہے۔ لوسیا پیریز کے بھائی ماتھیاز کا کہنا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے ذریعے مزید لڑکیوں کو ظلم کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ ماتھیاز نے کہا، ’’اب ایک بھی زندگی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے، ہمیں باہر نکل کر یہ زور زور سے بتانا ہوگا۔‘‘