1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولیس کے ذریعے نفاذِ اسلام کا حامی نہیں ہوں، ایرانی صدر

مقبول ملک4 مئی 2015

ایران کے اعتدال پسند سمجھے جانے والے صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ وہ پولیس کے ذریعے نفاذِ اسلام کے حامی نہیں ہیں اور یہ ملکی پولیس کا کام ہے بھی نہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں ایرانی عوام کی رہنمائی کرے۔

ایرانی صدر حسن روحانیتصویر: Reuters

تہران سے پیر چار مئی کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق صدر روحانی نے آج ملکی دارالحکومت میں ایرانی اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کا یہ کام تو ہے کہ اس کے پاس ’ہتھکڑیاں اور پستول‘ ہوں لیکن پولیس اہلکاروں کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ مذہبی قیادت کی طرح کا کردار ادا کریں۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ اپنے اس بیان کے ساتھ حسن روحانی نے ملک میں نظر آنے والی ان کوششوں سے دانستہ دوری اختیار کر لی ہے، جن کے تحت مذہبی امور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی شامل کر نے کی حمایت کی جا رہی ہے۔

اس بارے میں اے ایف پی نے اپنے ایک جائزے میں لکھا ہے کہ صدر حسن روحانی کو ابھی گزشتہ ہفتے ہی اس وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی قدامت پسند مذہبی قیادت اور سخت گیر سیاسی سوچ کے حامل ارکان پارلیمان کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ مسلسل اس بات پر روز دیتے آئے تھے کہ مذہبی معاملات میں پولیس کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

اس تناظر میں حسن روحانی نے آج اساتذہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’آج اگر ہم انہیں (پولیس کو) یہ کہیں کہ ان کی حیثیت کسی دینی مدرسے کی سی ہے اور وہ اپنے طور پر اسلام کی تشریح کر سکتے ہیں، تو نتیجہ بدنظمی اور انتشار کی صورت میں نکلے گا۔‘‘

اس موقع پر ایرانی صدر نے مزید کہا، ‘‘اسکولوں، یونیورسٹیوں اور تمام دینی تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا لازمی مشن یہ ہے کہ وہ اسلام کو بہتر طور پر سمجھیں اور اس کی بہتر تفہیم کے لیے کوشاں رہیں۔ اسلامی تعلیمات کو تفہیم، وضاحت اور ان کا پھیلاؤ سب کی ذمہ داری ہے۔ آپ کسی ایک ادارے کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسلام کی وضاحت وہ کرے۔‘‘

صدر روحانی نے گزشتہ برس ایک ایسے پارلیمانی مسودہ قانون پر تنقید کی تھی جسے بعد میں غیر آئینی قرار دے دیا گیا تھاتصویر: imago/UPI Photo

ایرانی صدر روحانی نے گزشتہ برس ایک ایسے مجوزہ قانونی مسودے کی مخالفت بھی کی تھی، جس کے تحت پولیس اور رضاکار ملیشیا گروپوں کو یہ اختیارات دیے جانا تھے کہ وہ ایرانی معاشرے میں خواتین کے لیے پردے کے لازمی قانون پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ تب حسن روحانی نے کہا تھا، ’’ہمیں برائی کی روک تھام کے لیے ’برے حجاب‘ کے مسئلے کو اپنی توجہ کا حد سے زیادہ مرکز بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘‘ بعد ازاں ایران میں کسی بھی قانون سازی سے پہلے اس پارلیمانی مسودے کو غیر آئینی قرار دے دیا گیا تھا۔

حسن روحانی 2013ء میں زیادہ قدامت پسند محمود احمدی نژاد کے جانشین کے طور پر ایرانی صدر منتخب کیے گئے تھے۔ قدرے اعتدال پسند روحانی کو کئی مختلف امور پر سخت گیر سیاسی اور مذہبی حلقوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے، جن میں روحانی کی ایران کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق عالمی طاقتوں کے ساتھ کسی معاہدے تک پہنچنے کی کوششیں بھی شامل ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں