پولینڈ: شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد نچلی ترین سطح پر
5 فروری 2023
پولینڈ میں حکام نے بتایا ہے کہ یورپی یونین کے رکن اس ملک میں شرح پیدائش دوسری عالمی جنگ کے بعد سے لے اب تک کی نچلی ترین سطح پر آ گئی ہے۔ گزشتہ برس پولینڈ کی آبادی میں تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ کی کمی ہو گئی۔
اشتہار
پولینڈ کے مرکزی شماریاتی ادارے نے بتایا کہ گزشتہ برس اس مشرقی یورپی ملک میں نومولود بچوں کی تعداد 2021ء کے مقابلے میں 27 ہزار کم رہی۔ 2022ء میں پورے پولینڈ میں صرف تین لاکھ پانچ ہزار بچے پیدا ہوئے۔
یہ بات ملکی حکام کے لیے اس وجہ سے تشویش کا باعث ہے کہ گزشتہ برس پولینڈ میں مجموعی طور پر تین لاکھ پانچ ہزار بچے پیدا ہوئے مگر ساتھ ہی چار لاکھ 48 ہزار شہری انتقال بھی کر گئے۔ یوں جرمنی کے ہمسایہ اس یورپی ملک کی آبادی میں 2022ء میں ایک لاکھ 41 ہزار کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
یورپی یونین کا آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک
پولینڈ یورپی یونین کے رکن 27 ممالک میں سے اس بلاک میں شامل مشرقی یورپی ریاستوں میں سے ایک ہے اور اپنی مجموعی آبادی کے لحاظ سے اس یونین کے رکن بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔
یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی ہے، جس کے بعد فرانس، اٹلی اور اسپین جیسے ممالک کے ساتھ ساتھ پولینڈ کا نام بھی آتا ہے جبکہ کئی رکن ممالک کی قومی آبادی تو محض چند ملین بنتی ہے۔ ایسے چھوٹے ممالک میں بالٹک کی تینوں جمہوریائیں اور سلووینیہ، قبرض اور مالٹا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔
یورپ کا فطری ماحول تنہا وادیوں، بلند پہاڑوں اور گھاٹیوں کی وجہ سے بہت متنوع ہے، اسی لیے یہاں پیدل سفر کے راستوں کا انتخاب بھی بہت زیادہ ہے۔ کلاسک راستوں سے لے کر سنسنی کے متلاشیوں کے لیے، یہ ہمارے چند پسندیدہ راستے ہیں۔
تصویر: Thomas Trutschel/photothek/picture alliance
الپس
اٹلی، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، لِشٹن شٹائن، آسٹریا اور سلووینیا الپس کا حصہ ہیں۔ اس یورپی پہاڑی سلسلے کو مختلف راستوں سے عبور کیا جا سکتا ہے۔ ایک پرانا راستہ ای فائیوہے جو جرمنی کے اوبرسڈورف سے میرانو، اٹلی تک جاتا ہے۔ اس راستے کو طے کرنے میں تقریباً ایک ہفتہ لگتا ہے، اس دوران پیدل سفر کرنے والے پہاڑی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ایک پہاڑی سے دوسرے پہاڑی پر جاتے ہیں۔
تصویر: Thomas Trutschel/photothek/picture alliance
جرمنی۔ سُوگ شپٹسے
الپس میں سُوگ شپٹسے جرمنی کا سب سے اونچا پہاڑ ہے جس کی بلندی 2,962 میٹر ہے۔ سیاح کیبل کار کے ذریعے آرام سے چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں، جبکہ پرجوش پیدل سفر کرنے والے ہوئلنٹال یعنی وادی جہنم سے گزرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس مشکل سات گھنٹے کی چڑھائی کے لیے جسمانی طور پر تندرست اور پیروں کا مظبوط ہونا ایک لازمی شرط ہے۔ یہ پہاڑ سب کے لیے ہے، لیکن پیدل ہر کسی کے لیے نہیں۔
تصویر: Hinrich Bäsemann/picture alliance
سوئٹزرلینڈ: عظیم الَیچ گلیشیر
الپس کے اس چھوٹے سے ملک میں 65,000 کلومیٹر پیدل سفر کا ریکارڈ ہے۔ 4,000 میٹر کی کئی چوٹیوں سے بنا عظیم الَیچ گلیشیر، ایک متاثر کن نظارہ ہے۔ 20 کلومیٹر پر پھیلا ہوا، یہ الپس کا سب سے بڑا گلیشیر ہے۔ پہاڑی گائیڈ کے ساتھ کوئی بھی الَیچ کے ساتھ ساتھ پیدل سفر کر سکتا ہے۔یہاں روزانہ کی بنیاد پر سیاحتی دورہ جون اور اکتوبر کے درمیان دستیاب ہوتا ہے۔
آسٹریا کا الپس پیدل سفر کرنے والوں کی جنت ہے، اور اسی طرح نوکبیرگے بائیوسفیئر پارک بھی ہے۔ 2,336 میٹر تک پہنچنے والا، کیونِگس اشٹول اس غیر مہذب الپائن ماحول میں سب سے اونچا پہاڑ ہے جس کی پہاڑی چوٹی پر گھاس اگی ہوئی ہے۔ ایک آرام دہ خوبصورت راستہ تین گھنٹوں میں اوپر کی طرف جاتا ہے، یہ آہستہ سے صرف 300 میٹر اونچائی پر چڑھتا ہے۔
تصویر: S. Derder/blickwinkel/picture alliance
اٹلی: ڈولومائٹس میں تین چوٹیاں
ڈولومائٹس میں تین چوٹیاں، جنہیں درائے سِنن بھی کہا جاتا ہے، اطالوی ایلپس کا حصہ ہیں اور اس خطے کی ایک مکمل نشانی ہے۔ اچھی طرح سے ایستادہ راستوں پر چلنے میں تقریباً چار گھنٹے لگتے ہیں، اور یہ راستہ ناتجربہ کار پیدل سفر کرنے والوں کے لیے بھی موزوں ہے۔ پھر بھی اکیلے رہنے کی توقع نہ کریں، کیونکہ پگڈنڈیاں سیاحوں کا مقناطیس ہیں۔ یہ چوٹیاں 2009ء سے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہیں۔
تصویر: Franz Neumayr/picturedesk/picture alliance
کورسیکا: بحیرہ روم کے جزیرے پر چیلنجنگ ہائکنگ
بحیرہ روم میں کورسیکا کے جزیرے پر واقع یورپ میں پیدل سفر کے سب سے زیادہ پسند کیے جانے والے راستوں میں سے ایک GR20 ہے۔ 180 کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ راستہ جزیرے کو شمال سے جنوب کی طرف عبور کرتا ہے جس میں خوبصورت ’’ریجنل ڈی کورس‘‘نیچر پارک سے گزرتا ہے۔ گرمیوں میں باہر نکلنے سے پہلے دو بار سوچیں، کیونکہ یہاں درجہ حرارت بہت گرم ہو سکتا ہے۔
اسپین کے سرسبز شمال میں Picos de Europa پہاڑ ملک کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے قومی پارکوں میں سے ایک میں واقع ہیں۔ سرسبز پودوں، ناہموار چونا پتھر کی شکلیں اور صاف برفانی جھیلیں یہاں پیدل سفر کرنے والوں کا انتظار کرتی ہیں۔ Ruta de Cares، چونے کے پتھر میں کھدی ہوئی ایک 2,000 میٹر اونچے پہاڑوں سے جڑ ی ہوئی راہ ہے۔ اس سفر کا بہترین حصہ اس کی سمندر سے صرف 20 کلومیٹر دوری ہے۔
تصویر: Rob Cousins/robertharding/picture alliance
پولینڈ: سیاہ جھیل
پولینڈ کے بلند وبالا تاتراس پہاڑی سلسلے میں 2,499 میٹر اونچی ریسی چوٹی کے دامن میں پہاڑی جھیل مورسکی اوکو تک پیدل سفر نسبتاً آسان ہے۔ لیکن سطح سمندر سے 1,600 میٹر بلندی پر واقع بلیک لیک تک کے اضافے پر پسینہ بہانے کے لیے تیار رہیں۔ اس کے بعد آپ کو پتہ چل جائے گا کہ تاتراس کو دنیا کے سب سے چھوٹے اونچے پہاڑوں کے طور پر بھی کیوں جانا جاتا ہے۔
تصویر: Jan Wlodarczyk/FORUM/picture alliance
مونٹی نیگرو: تارا وادی
تارا وادی مونٹی نیگرو کے ڈرمیٹر نیشنل پارک کی جھلکیوں میں سے ایک ہے، جو یونیسکو کے عالمی قدرتی ورثے کی فہرست میں شامل ایک جگہ بھی ہے۔ یہ یورپ کی سب سے گہری وادی ہے اور خاص طور پر اوپر سے بہترین نظارے پیش کرتی ہے۔ زبلجک کے قصبے سے شروع ہونے والے کیورویک پہاڑ پر دو گھنٹے کی کھڑی چڑھائی چڑھنے کے بعد ایک شاندار نظارے کے ساتھ خوبصورت انعام حاصل کریں۔
تصویر: Givaga/Zoonar/picture alliance
ناروے: رومس دالسیگن ریج
Fjords کی سرزمین میں Romsdalseggen Ridge دنیا کی خوبصورت ترین پہاڑیوں میں سے ایک ہے۔ پیدل سفر کرنے والے 10 کلومیٹر تک پگڈنڈی پر سفر کرتے ہوئے 970 میٹر اونچائی پر چڑھتے ہیں۔ سب سے اوپر، پیدل سفر کی پگڈنڈی پہاڑی چوٹی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور ایسے نظارے پیش کرتی ہے جو سب سے زیادہ تجربہ کار ہائیکر کی سانسیں بھی روک دیں۔ Rampestreken دیکھنے کے پلیٹ فارم پر ایک وقفہ لیں اور ایک تصویر بھی!
پولستانی شماریاتی ایجنسی کے مطابق گزشتہ برس پولینڈ کی مجموعی آبادی تقریباﹰ ڈیڑھ لاکھ کی کمی کے ساتھ 37.8 ملین سے تھوڑی سی ہی کم بنتی تھی۔ اس ملک کی آبادی میں کمی کا رجحان 2013ء سے دیکھنے میں آ رہا ہے، جو ابھی تک جاری ہے۔
شرح پیدائش کے حوالے سے حکومتی مراعات
سماجی طور پر پولینڈ کیتھولک مسیحی اکثریتی آبادی والا معاشرہ ہے اور قدامت پسند حکمران جماعت قانون اور انصاف پارٹی (پی آئی ایس) کی حکومت عام شہریوں کو کئی طرح کی مراعات دے کر اور اسقاط حمل سے متعلق سخت قوانین کے ساتھ یہ کوششیں کر رہی ہے کہ ملکی آبادی میں کمی کو اضافے میں بدل دیا جائے۔
ایسی جملہ حکومتی کوششیں تاہم اب تک آبادی میں اضافے کی حکومتی خواہش کو عملی شکل دینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔
پولینڈ کی اپوزیشن اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ملکی تنظیموں کے مطابق حکومت نے اسقاط حمل سے متعلق جو قوانین دو سال پہلے مزید سخت کر دیے تھے، ان کا سماجی طور پر اور ملکی شرح پیدائش میں اضافے کے ہدف کو حاصل کرنے کے سلسلے میں فائدے کے بجائے الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔