1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولینڈ میں قدامت پسند صدر دوبارہ الیکشن جیت گئے

13 جولائی 2020

صدر آنجے ڈوڈا کی جیت کو یورپی یونین میں صنفی حقوق، آزاد عدلیہ اور میڈیا کے لیے دھچکا خیال کیا جا رہا ہے۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ یورپ کی بجائے امریکی صدر ٹرمپ کی قربت حاصل کی جائے۔

Polen I Präsidentschaftswahl I Andrzej Duda Sieger
تصویر: AFP/J. Skarzynski

پولینڈ کے الیکشن کمیشن کے مطابق بیشتر ووٹ گنے جا چکے ہيں جن سے واضح ہے کہ صدر آنجے ڈوڈا معمولی برتری سے اگلے پانچ سال کے لیے دوبارہ صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے مد مقابل دارالحکومت وارسا کے لبرل میئر رافیل ٹرزاسکوسکی سے پانچ لاکھ زیادہ ووٹ لیے۔

پیر کو الیکشن کمیشن کے مطابق جن چند حلقوں کے ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے ان سے اب تک کے مجموعی نتائج پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ابتدائی غير حتمی نتائج کے مطابق صدر ڈوڈا نے 51.2 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مخالف امیدوار کو 48.8 فیصد عوام کی تائيد حاصل ہوئی۔

قدامت پسند ایجنڈا

صدر ڈوڈا کی تازہ جیت سے حکمراں 'لا اینڈ جسٹس پارٹی' (پی آئی ایس) کی ملک کے اداروں پر گرفت مضبوط ہو گی۔  پارٹی سن دو ہزار پندرہ سے برسر اقتدار ہے اور اس نے پچھلے سال اکتوبر کے پارلیمانی انتخابات میں پھر فتح حاصل کی تھی۔

اس جماعت کو کیتھولک مسیحی ووٹروں کی حمایت حاصل ہے، جو ہم جنس پرستی، نوجوانوں میں جنسی تعلیم اور اسقاط حمل کے خلاف ہيں۔ اس بار انتخابی مہم کے دوران صدر ڈوڈا نے سماجی معاملات پر بظاہر مزید کڑا موقف اپنایا اور ہم جنس پرستی کو کمیونزم سے بھی 'بدترین' نظریہ قرار دیا۔

پولینڈ میں ان معاملات پر حکومتی موقف یورپی یونین کی انسانی حقوق کی اقدار سے متصادم رہا ہے۔ اس صدارتی اليکشن میں پارٹی کی پوری کوشش تھی کہ صدر بھی بدستور ان کا اپنا رہے تاکہ جماعت کو اپنے قدامت پسند ایجنڈے سے متعلق قانون سازی میں مشکلات نہ آئیں۔ پولینڈ میں اگلے پارلیمانی انتخابات تین سال بعد سن دو ہزار تئیس میں ہوں گے۔

تصویر: Getty Images/AFP/M. Cizek

صدر ڈوڈا کون ہیں؟

اڑتالیس سالہ صدر ڈوڈا پیشے کے اعتبار سے وکیل رہے ہیں۔ ان کا عقیدہ رومن کیتھولک ہے اور وہ خاندانی روایات کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے غریب اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے لیے فلاحی پروگرام شروع کیے، جس سے ان کی پولینڈ کے گاؤں دیہاتوں میں مقبولیت بڑھی ہے۔

صدر ڈوڈا کے سیاسی مخالفین کا الزام ہے کہ وہ ملک کے آزاد اداروں کو اپنی پارٹی کے نظریات اور مفادات کے تابع لانا چاہتے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ اپنے دوسری مدت صدارت میں عدلیہ اور پبلک سروس میڈیا کے حوالے سے مزید قانون سازی کرکے اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/Newscom/UPI Photo/S. Thew

صدر ڈوڈا کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات زیادہ اچھے نہیں رہے۔ ان کی کوشش ہے کہ یورپ کی بجائے امریکا کی قربت حاصل کی جائے۔ بظاہر قوم پرستی اور قدامت پسندی کے حوالے سے ان کے اور صدر ٹرمپ کے خیالات ملتے بھی ہیں۔

پچھلے ماہ صدر ڈوڈا سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ جرمنی سے امریکی فوجیں نکال کر اس کا کچھ حصہ پولینڈ میں تعینات کرنے جا رہا ہے۔ امریکا کے اس اقدام پر نہ جرمنی خوش ہے اور نہ روس، کہ جس کے مدمقابل امریکا یورپ میں نیٹو اتحاد کا اہم حصہ رہا ہے۔

 

ش ج، ع س (ڈی پی اے،  اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں