پولینڈ میں پناہ نہ دینے کی وجہ ’جہادیوں کا خوف‘ ہے
6 جنوری 2016پولینڈ یورپی یونین کے اٹھائیس اراکین میں سے ایک ملک ہے۔ ملک کی معیشت اور سیاسی اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے باجود یورپ میں جاری مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران پولینڈ نے یورپ آنے والے کل تارکین وطن کے صرف ایک فیصد کو اپنے ہاں پناہ دی ہے۔
گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں قدامت پسند سیاسی جماعت، لاء اینڈ جسٹس (پی آئی ایس) نے فتح کے بعد اقتدار سنبھال لیا تھا۔ پی آئی ایس نے اقتدار میں آنے کے بعد یورپی یونین کی جانب سے مہاجرین کی یورپ میں تقسیم کے لازمی کوٹے کے تحت اپنے ملک میں تارکین وطن کو پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ حکومت کے فیصلے کی حمایت میں پولش عوام بھی سڑکوں پر نکل آئی تھی۔
ایسے وقت میں جب یونین کے زیادہ تر ممالک تارکین وطن کو کھلی بانہوں سے خوش آمدید کہہ رہے ہیں، آخر وارسا حکومت اس قدر شدت سے تارکین وطن کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟
وارسا یونیورسٹی سے منسلک ماہر عمرانیات گاوین رے کا کہنا ہے پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ مخالفت پولش نوجوان طبقہ کر رہا ہے۔ گاوین رے کے مطابق مشرق وسطیٰ سے میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آنے والی بھیانک تصاویر اور برسراقتدار جماعت کے بیانات کی وجہ سے نوجوانوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’حکومت کی جانب سے تاثر دیا جاتا ہے کہ مہاجرین کے روپ میں جہادی بھی یورپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔‘‘
پولینڈ کے موجودہ وزیر خارجہ نے وزارت سنبھالنے کے فوراﹰ بعد اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ شامی مہاجرین پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ برلن میں بیٹھ کر کافی پینے کی بجائے شام واپس جا کر دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی کریں۔ پی آئی ایس سے ہی تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم نے بھی انتخابات سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ مہاجرین یورپ میں بیماریاں لے کر آ رہے ہیں۔
سماجی علوم کی ماہر گاوین رے کے مطابق، ’’اگرچہ پولینڈ میں بہت کم مسلمان رہتے ہیں لیکن موجودہ صورت حال کے تناظر میں پولش نوجوانوں کی جانب سے اسلام کو خطرہ تصور کرنا کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں یہودی بھی بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود سامیت دشمن سوچ بھی پائی جاتی ہے اور اب پولینڈ میں مسلمان کو ’اجنبی‘ سمجھا جاتا ہے۔
اس ضمن میں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ حکمران جماعت نے انتخابات کے دوران پولش عوام سے وعدہ کیا تھا کہ وہ پولینڈ کی یورپی یونین سے تعلقات کا از سرِ نو جائزہ لے گی۔ جماعت کے بیش تر رہنماؤں کا خیال ہے کہ پولینڈ کو مہاجرین کے سلسلے میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے دباؤ میں آ کر کوٹہ سسٹم کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
تیس سالہ پولش شہری، کامل کا کہنا ہے کہ پولینڈ کے لوگ ذہنی طور پر مسلمانوں کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کامل کا کہنا ہے، ’’ہمیں دوسرے رنگ و نسل، مذہب اور معاشرے سے آنے والے لوگوں کو قبول کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔‘‘