پولیش حکومت نے کہا ہے کہ وہ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے کنٹینر کیمپس بنانے کے منصوبے پر غور کر رہی ہے۔ پولش وزارت داخلہ کے مطابق ہنگری میں اسی طرح کے حراستی مراکز بنائے گئے ہیں، جو بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی نے پولش حکومت کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو رہائش فراہم کرنے کی خاطر کنٹینر کے بنے کیمپ بنانے کے منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے۔ پولینڈ کی وزارت داخلہ کے مطابق پناہ کے متلاشی افراد کو مناسب رہائش فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف منصوبہ جات پر غور جاری ہے۔
مقامی میڈٰیا نے پولش وزارت داخلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ توقع یہ ہے کہ کنٹینر کے بنے یہ کیمپس بیلاروس کی سرحد کے ساتھ ملحق علاقوں میں قائم کیے جائیں گے۔ اس مقام پر چیچنیا اور دیگر خطوں کے لوگ پولینڈ داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ممالک میں سیاسی انتقام کے شکار ایسے تارکین وطن کو امید ہوتی ہے کہ انہیں یورپی یونین میں پناہ مل جائے گی۔
تاہم وارسا میں قائم ہیلسنسکی فاؤنڈیشن برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا ہے کہ تارکین وطن کو اس طرح حراست میں لینا نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کے مطابق بالخصوص ایسے کنبے جن میں بچے بھی شامل ہیں، انہیں اس طرح کے شیلٹر ہاؤسز میں رکھنا مناسب نہیں ہو گا۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Mitrolidis
8 تصاویر1 | 8
اس ادارے نے مزید کہا ہے کہ وارسا حکومت کو ایسے کنٹینز کے شیلٹر ہاؤسز بنانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کو مہاجرین کے سنگین بحران کا سامنا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس صرف بارہ سو تارکین وطن نے پولینڈ میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ پولش حکومت مسلمان مہاجرین کو ملک میں پناہ دیے جانے کے خلاف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح ملک کے کیتھولک کلچر کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
پولینڈ کے مقامی میڈیا کے مطابق حکومت کا منصوبہ ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کو گرفتار کر کے انہیں ایسے کنٹینر کیمپس میں رکھا جائے، جو ملکی سرحد پر لگی خاردار تاروں کے پیچھے نصب کیے جائیں گے۔ ملکی وزیر داخلہ کے بقول حکومت کو کسی بھی ہنگامی حالت کے لیے پہلے سے ہی تیار رہنا چاہیے۔
اسی طرح کے کنٹینر کیمپس ہنگری نے سربیا سے متصل اپنی سرحد پر بنائے ہیں۔ ان حراستی مراکز کے گرد خار دار تاریں بچھائی گئی ہیں تاکہ وہاں موجود تارکین وطن یا مہاجر اِن سے نکل کر ملک کے دیگر علاقوں میں داخل نہ ہو سکیں۔ یورپی یونین نے بوڈا پیسٹ حکومت کے اس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔