پولینڈ کی باربرا گوریتسکا ’چمگادڑوں کی ماں‘ کیسے بنیں؟
17 فروری 2024
انہتر سالہ پولش خاتون باربرا گوریتسکا ایک بلند رہائشی عمارت کی نویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں رہتی ہیں اور اُڑنے والے ممالیہ جانور چمگادڑوں کی پناہ گاہ قائم کیے ہوئے ہیں۔ جن کے ساتھ ان کی محبت بہت منفرد ہے۔
تصویر: SERGEI GAPON/AFP
اشتہار
باربرا گوریتسکا ایک اونچی رہائشی عمارت کی نویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں چمگادڑوں کے لیے ایک پناہ گاہ چلاتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ اب تک 1600 چمگادڑوں کی دیکھ بھال کرنے میں کامیاب رہی ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوئی ہیں۔
گوریتسکا نے اپنے فلیٹ میں خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوے کہا، ''یہ سلسلہ 16 سال قبل، جنوری کی ایک انتہائی سرد رات کو شروع ہوا تھا۔ تب چمگادڑوں نے میرے گھر کے روشن دانوں سے اندر داخل ہونا شروع کیا تھا۔‘‘
وہ اس وقت تقریباً تین درجن چمگادڑوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ شدید بیمار ہیں یا زخمی حالت میں ہیں، یا 'ہائبرنیشن‘ سردیوں کے موسم میں کی جانے والی لمبی نیند سے اچانک بیدار ہوئے ہیں۔
پولش پنشنر خاتون کے مطابق ان کی پناہ گاہ میں چمگادڑوں کی تعداد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔ موسمیاتی شدت کی وجہ سے چمگادڑوں کو یہ دھوکا ہوتا ہے کہ شاید موسم بہار آگیا ہے اور باہر زیادہ سردی نہیں رہی۔ یہ سوچ کر وہ اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلتی ہیں تو حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ یعنی اب بھی موسم اچھا خاصا سرد ہوتا ہے۔ کم درجہ حرارت میں انہیں سردی لگ جاتی ہے، وہ بیمار ہو جاتی ہیں اور سردی کا مقابلے کرنے کے لیے ان کی کافی زیادہ توانائی صرف ہو جاتی ہے اور وہ بیماری کی حالت میں اور سردی سے بچنے کے لیے باربرا گوریتسکا کی پناہ گاہ کا رُخ کرتی ہیں۔
چمگادڑوں کی پناہ گاہ اس عمارت کی نویں منزل پر قائم ہےتصویر: SERGEI GAPON/AFP
باربرا گوریتسکا کہتی ہیں، ''گرم موسم اور غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے وہ سوچتی ہیں کہ موسم بہارآ گیا ہے اور یہاں آکر انہیں کھانا بھی ملے گا۔ بدقسمتی سے، وہ یہاں پہنچنے تک اتنی کمزور ہو جاتی ہیں کہ اڑ بھی نہیں سکتیں۔‘‘
اشتہار
کیا چمگادڑوں کی دیکھ بھال صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟
پولینڈ سے تعلق رکھنے والی خاتون نے بتایا کہ وہ شروع شروع میں چمگادڑوں کے بارے میں عام لوگوں کی طرح تعصب پر مبنیٰ عقائد رکھتی تھیں۔ ان کا ماننا تھا کہ چمگادڑوں کے کاٹنے سے انسان 'ریبیز‘ جیسی بیماری کا شکار ہوسکتا ہے پر ان کا یہ گمان ان کی ایک مائیکرو بایولوجسٹ دوست سے مشورہ کرنے کے بعد ختم ہو گیا۔
گوریتسکا کو اب ماہرین کی خدمات حاصل ہیں اور ساتھ ساتھ ان کے رضاکاروں کا ایک نیٹ ورک بھی قائم ہو گیا ہے جو ان کو چمگادڑوں کی اس پناہ گاہ میں دیکھ بھال کے لیے مدد کرتے ہیں۔
چمکادڑوں کی دیکھ بھال
اس پناہ گاہ میں موجود سب چمگادڑوں کے نام ہیں اور ہر ایک کے کھانےکی ٹائمنگ الگ الگ ہے اور ساتھ ساتھ ان کی ادویات کا پلان بھی موجود ہے۔
تصویر: SERGEI GAPON/AFP
گوریتسکا کے مطابق کچھ چمگادڑیں اس پناہ گاہ میں قلیل مدت یعنی 2 ہفتے تک قیام کرتی ہیں، تاہم اگر ان کی ہڈی وغیرہ ٹوٹی ہو تو انہیں صحتیابی تک طویل مدتی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ جانور پرندے نہیں ہیں لیکن اُڑتے ہیں
کرہٴ ارض پر ایسے کسی جانور پائے جاتے ہیں، جو پرندے نہیں ہیں لیکن قدرت نے اُنہیں پرواز کی صلاحیت عطا کر رکھی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے پانی اور خشکی کے ایسے چند جانوروں کی تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اُڑتی مچھلیاں
عالمی سمندروں میں مچھلیوں کی کئی اقسام پانی کی سطح سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر تیس سیکنڈ تک فضا میں رہ سکتی ہیں۔ گلابی پروں والی یہ مچھلیاں ستّر کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ سفر کرتے ہوئے چار سو کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتی ہیں۔
تصویر: gemeinfrei
پرندوں کی طرح مچھلیوں کے بھی جھرمٹ
سمندر میں بہت سی مچھلیاں مستقل یا عارضی طور پر بالکل ویسے ہی ایک جھرمٹ کی صورت میں تیرتی ہیں، جیسے کہ پرندے۔ ایسے میں یہ مچھلیاں ایک دوسرے سے یکساں فاصلہ رکھتے ہوئے ایک ہی جیسی حرکت کرتے ہوئے تیرتی ہیں۔
تصویر: Fotolia
پروں والی ایک اور مچھلی
یہ مچھلیوں کی ایک ایسی قسم ہے، جو خطرے کی صورت میں پانی سے باہر ایک بڑی چھلانگ لگانے کے لیے اپنے سینے کے پٹھوں اور چھوٹے چھوٹے پروں کو استعمال کرتی ہے۔ یہ مچھلی جنوبی امریکا کے دریاؤں اور جھیلوں میں پائی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance / Arco Images
ہشت پا راکٹ
یہ آکٹوپس یا ہشت پا سمندروں میں بہت زیادہ گہرائی میں پایا جاتا ہے، جہاں روشنی بہت ہی کم ہوتی ہے۔ کسی قسم کے خطرے کی صورت میں یہ ایک راکٹ کی صورت میں پانی سے باہر چھلانگ لگا دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک ’چھوٹے میزائل‘ کی طرح
کسی دشمن کی طرف سے نگل لیے جانے کے خوف سے یہ ہشت پا اپنے پیچھے لگے دو پَر کھول لیتے ہیں اور کسی میزائل کی طرح پانی سے باہر اچھلتے ہیں۔ یہ ہشت پا تقریباً تیس میٹر تک فضا میں رہنے کے بعد نیم دائرے کی صورت میں واپس پانی میں گرتےہیں۔ اس دوران ان کی رفتار گیارہ اعشاریہ دو میٹر فی سیکنڈ تک بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔
پرندہ ہے لیکن اُڑتا نہیں
اس طوطے کا وطن نیوزی لینڈ ہے۔ یہ پرندہ زیادہ تر رات کے وقت خوراک ڈھونڈنے کے لیے باہر نکلتا ہے اور زیادہ تر نباتات پر گزارا کرتا ہے۔ یہ طوطوں کی واحد معلوم قسم ہے، جو اُڑ نہیں سکتی۔
تصویر: picture alliance/WILDLIFE
بقا کے خطرے سے دوچار
یہ طوطا اُڑ نہیں سکتا تو کیا ہوا، اسے درختوں پر چڑھنے اور اترنے میں بے انتہا مہارت حاصل ہے اور یہ چلتے اور اچھلتے ہوئے ایک سے دوسرے درخت پر جاتا ہے۔ طوطوں کی یہ قسم بقا کے خطرے سے دوچار ہے۔
تصویر: GFDL & CC ShareAlike 2.0
پوشیدہ پروں والی مخلوق
یہ کون سا جاندار ہے؟ دیکھنے میں یہ ایک بچھو لگ رہا ہے؟ کیا خیال ہے کہ یہ اُڑ بھی سکتا ہو گا؟ یہ پوشیدہ پنکھوں والا سیاہ بھونرے جیسی ہیئت رکھنے والا اصل میں ایک رینگنے والا کیڑا ہے۔
تصویر: imago
کاک ٹیل بیٹل
خطرے کی صورت میں یہ بھونرا اپنی دُم بالکل کسی بچھو کی طرح بلند کر لیتا ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی پچیس تا اٹھائیس ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس کے پَر اس کے جسم کے پچھلے حصے کے اندر چھُپے ہوتے ہیں، جو بوقتِ ضرورت باہر آ جاتے ہیں اور اُن کی مدد سے یہ اُڑ بھی سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Klett GmbH
چمگادڑ کے بچے
آسٹریلیا میں جنگلی حیات کے تحفظ کے ایک مرکز میں یہ چمگادڑ کے بچے ہیں، جن کی عمریں دو سے لے کر تین ہفتے تک ہیں۔
تصویر: cc-by:Wcawikinfo-sa
شکل کتے سے ملتی جُلتی
چمگادڑ کی شکل کسی کتے سے ملتی جُلتی ہے۔ چمگادڑ رات کے وقت اُڑ کر خوراک تلاش کرتے ہیں اور زیادہ تر پھلوں اور پھولوں پر گزارا کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بے ضرر جانور
اس چمگادڑ کے پروں کی لمبائی 1.7 میٹر اور وزن 1.6 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ یہ اس لیے بے ضرر ہوتےہیں کہ یہ گوشت نہیں بلکہ نباتات کھاتے ہیں۔ چمگادڑ سارا دن سر کے بل الٹے لٹک کر سوتے ہیں اور رات کو فعال ہوتے ہیں۔
تصویر: Rainer Dückerhoff
اُڑنے والا سانپ
سانپ عام طور پر پرواز نہیں کرتے لیکن سانپوں کی یہ قسم اُڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
خوبصورت ’پرواز‘
یہ سانپ ایک درخت سے ’اُڑ‘ کر دوسرے درخت تک جا رہا ہے۔ اپنے جسم کو خوبصورت دائروں کی شکل میں موڑتے ہوئے یہ سانپ ایک سے دوسرے درخت تک بعض اوقات تیس تیس میٹر لمبی چھلانگ بھی لگاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
14 تصاویر1 | 14
گوریتسکا نے کہا، ''مجھے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ میں ان سے بے حد محبت کرتی ہوں اور اسی لیے حسب ضرورت آدھی رات کو اٹھ کر انہیں اینٹی بائیوٹک دیتی ہوں۔‘‘
چمگادڑوں سے انوکھی محبت کرنے والی گوریتسکا کا ماننا ہے کہ ، ''یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ آپ ایک بچے سے پیار کرتے ہوں۔‘‘