پولینڈ کی جی 20 میں مبصر کی حثیت، یورپ کے لیے اہم کیوں؟
14 دسمبر 2025
پولینڈ کو جی 20 سربراہی اجلاس میں مبصر کے طور پر مدعو کیا جانا اس کی معاشی اور جغرافیائی سیاسی اہمیت کے بڑھتے ہوئے اعتراف کی علامت ہے۔ اگرچہ مکمل رکنیت ابھی کافی دور ہےکیونکہ جی 20 کی رکنیت روایتی طور پر دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے،یہ صورت حال کچھ اہم سوالات کو جنم دیتی ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں پولینڈ کی معیشت نے شاندار ترقی کی ہے۔ ماضی میں کمیونسٹ بلاک کا حصہ رہنے والی یہ ریاست یورپ کی تیزی سے ترقی کرنے والی منڈیوں میں شامل ہو گئی ہے۔ مقامی طلب ، یورپی یونین کے فنڈز اور مضبوط مینوفیکچرنگ و عوامی خدماتی شعبے کے سبب پولینڈ کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) ستمبر میں ایک کھرب ڈالر کی علامتی حد عبور کرنے کے بعد دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہوگئی۔
گزشتہ ماہ عالمی سطح پر پولینڈ کے لیے یہ موقع اس وقت پیدا ہوا، جب جی 20 گروپ میں ہلچل مچ گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کے خلاف امتیاز کا الزام لگا کر جوہانسبرگ اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اگلے سال میامی میں ہونے والے اجلاس سے جنوبی افریقہ کو بھجوائی گئی دعوت واپس لے لی۔ اس اقدام نے پولینڈ کے لیے راستہ کھول دیا کہ وہ دسمبر 2026 میں میامی میں ہونے والے جی 20 اجلاس میں مبصر کے طور پر جنوبی افریقہ کی جگہ لے سکے۔
وارسا معاہدے سے جی 20 کی میز تک
پولینڈ کا یہ سفر محض 36 برس پر محیط تھا۔ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تصدیق کی کہ واشنگٹن ''جی 20 میں اپنا جائز مقام حاصل کرنے‘‘ کی پولینڈ کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے، جو سرد جنگ کے بعد کی مضبوطی کی علامت ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ 1999 میں جی 20 کے قیام کے بعد کسی وسطی یا مشرقی یورپی ملک کو سربراہ اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے، چاہے یہ شرکت بطور مہمان ہی کیوں نہ ہو۔
جی 20 دنیا کی 19 بڑی معیشتوں، یورپی یونین اور افریقی یونینکا گروپ ہے لیکن مشرقی اور وسطی یورپ کا کردار اب تک صرف یورپی یونین کی اجتماعی نشست تک محدود رہا ہے۔ اس سے خطے کے بڑے ممالک، جیسے پولینڈ، براہِ راست اپنی آواز اُٹھانے سے محروم رہے، حالانکہ ان کی معاشی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے۔
وسطی اور مشرقی یورپ کی سب سے بڑی معیشت ہونے کے ناطے پولینڈ یورپی یونین کے مشرقی حصے میں نمایاں اثر رکھتا ہے۔ اس کا جی ڈی پی اب سوئٹزرلینڈ سے زیادہ ہے اور مغربی یورپ کی درمیانے درجے کی ریاستوں کے برابر پہنچ چکا ہے۔
جی 20 کی اپنی افادیت ثابت کرنے کی جدوجہد
جنوبی افریقہ کے ساتھ تنازعہ جی 20 کی اہمیت کو پرکھنے والے کئی چیلنجز میں سے صرف ایک ہے۔ اقوام متحدہ یا یورپی یونین کے برعکس، جی 20 کوئی باضابطہ بین الاقوامی تنظیم نہیں ہے اور اس کی طاقت صرف اس اثر و رسوخ تک محدود ہے جو اس کے ارکان اجتماعی طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
جی 20 میں ایسے ممالک شامل ہیں جن کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں، جیسے روس، چین، بھارت اور سعودی عرب۔ اس وجہ سے سلامتی، ماحولیات یا تجارتی امور پر اتفاق رائے حاصل کرنا دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور تجارتی جوابی اقدامات کی دھمکیوں نے جی 20 کے بنیادی مقصد ، کھلی منڈیوں کے فروغ کو بھی کمزور کر دیا ہے، جبکہ برکس گروپ (برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ) نے اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیا ہے۔
جی 20 میں مستقل نشست کا حصول مشکل
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے پولینڈ کی ممکنہ مکمل رکنیت پر بات کی جبکہ پولینڈ کے حکام میامی کی دعوت کو باضابطہ ''شمولیت کے عمل‘‘ کا آغاز قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ماہرین کے مطابق جی 20 کی تشکیل معاشی کے ساتھ ساتھ سیاسی عوامل پر بھی منحصر ہے۔ ارجنٹینا، جنوبی افریقہ اور سعودی عرب جیسی معیشتیں اب دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل نہیں لیکن تاریخی بنیاد پر اپنی نشستیں برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
مقابلہ بھی سخت ہے: نائیجیریا سے ویتنام تک دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں بھی شمولیت کے لیے لابنگ کر رہی ہیں۔ ارکان کی تعداد بڑھانے سےجی 20 کا اثر مزید کم ہو سکتا ہے۔ پولینڈ کی رکنیت کے لیے پرامید حلقے سمجھتے ہیں کہ وارسا کی معاشی ترقی کی رفتار اور ٹرمپ انتظامیہ کی حمایت اس عمل کو تیز کر سکتی ہے جبکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ رکنیت کے ڈھانچے پر نظرثانی میں ایک دہائی یا اس سے زیادہ لگ سکتا ہے۔
رکاوٹوں کے باوجود، عالمی حکمرانی میں یورپ کے قلب کی آواز پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہو رہی ہے۔
ادارت: شکور رحیم